تازه ترین عناوین
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
- اولاد کے حقوق
- نگاهى به تولد و زندگى امام زمان(عج)
- بنجامن نیتن یاہو کا ایران مخالف دورہ امریکا
- عراق؛ صوبہ دیالہ کے علاقے السعدیہ اور جلولاء سے داعش کا صفایا
آمار سایت
- مہمان
- 50
- مضامین
- 456
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 553871
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مھر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت س کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔ واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاو۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا: "ابوھا فداھا" یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔ 200 ھجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت س کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ س کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ھجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر "ساوہ" پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر "قم" کا رخ کریں۔ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔
حیات طیّبہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پرایک طائرانہ نظر
حال و هوای حرم حضرت «فاطمه معصومه سلام الله علیها» در شب وفات ایشان
حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہاکی مبارک نسل سے فاطمہ نامی ایک پر برکت بیٹی ہیں جو معصومہ اور کریمۂ اہل بیت کے القاب سے معروف ہیں ۔
والد بزرگوارحضرت امام موسی کاظم ؑاور والدہ گرامی روایات کی روسے وہی حضرت امام رضاؑکی والدہ گرامی ہیں۔ مورّخین نے حضرت معصومہ کی ولادت
با سعادت کی صحیح تاریخ یکم ذیقدہ الحرام ۱۷۳ھ ق قمری (مدینہ منوّرہ) لکھی ہے اس بزرگوار خاتون نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جس میں تمام اخلاقی فضائل موجودتھے۔ عصمت وعفت اور علم وحکمت اس خاندان کی نمایاں صفات شمار ہوتی ہیں۔حضرت معصومہ (ع) کی اخلاقی اور علمی خصوصیات کی بنا پر علمائے دین اس امر کے معتقد ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم ؑ کی اولاد میں حضرت امام رضاؑکے بعد کوئی ایک بھی حضرت معصومہ کا ہم مرتبہ نہیں ہے۔ حضرت معصومہ (ع) اس قدر متقی و پرہیزکار تھیں کہ حضرت ؑ کی زیارت میں نقل ہوا ہے: ‘‘السلام علیک ایتھاالطاھرۃالحمیدۃ الکبری الرشیدۃ التّقیّۃ النّقیّۃ المرضیّۃ ’’ اس مقدس بی بی کےمزید فضائل میں شفاعت کرنے کا رتبہ و مقام ہے ۔لہٰذا روایات اور دینی آثار میں حضرتؑ کےشفیعہ ہونے کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں:حضرت(فاطمہ معصومہؑ)کی شفاعت کی برکت سے میرے تمام شیعہ جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔حضرت معصومہ ؑ اپنے مہربان بھائی کی پناہ و سرپرستی میں زندگی بسر کر رہی تھیں، حضرت ؑکی مدینہ سےہجرت اور خراسان میں مقیم ہو جانے کے بعد حضرت کی ہمشیرہ گرامی اپنے مہربان بھائی کے دیدار وزیارت کے لیے مدینہ سے مروکی راہی ہوگئیں لیکن راستے میں ہی قم میں داخل ہونے کے بعد ۱۷ دن بیمار رہنے کےبعد جہان جاودانی کو سفر کر گئیں۔ حضرت معصومہؑ کے پیکراقدس کو تشییع کرنے کے بعدنہایت عزت و احترام کے ساتھ بابلان میں دفن کردیاگیا۔
امام حسن عسکری (ع) کی سیاسی سیرت پر طائرانہ نظر
امام حسن عسکری (ع) نے سن ۲۳۲ھ،ق میں مدینہ میں ولادت پائی آپؑ اپنے بابا کی طرح عباسی خلفاء کے حکم کے مطابق سامراء کے عسکر نامی محلہ میں
(ع) نے خفیہ طور پر سیاسی سرگرمیاں انجام دیں نمونہ کے طور پر امام (ع) کے قریبی چاہنے والے عثمان بن سعید تیل بیچنے کے بہانے سرگرمی کیا کرتے اور امامؑ کے شیعہ تمام رقومات شرعی ان کے ذریعہ امامؑ تک پہنچاتے۔
امام حسن عسکری (ع) کا ایک موقف شیعوں کی مالی امداد اور حمایت میں پوشیدہ ہے بعض اوقات ایسا ہوتا کہ آپؑ کے چاہنے والوں میں جب کوئی تنگدستی کی شکایت کرتا تو آپؑ اس کی مشکلات کو دور کرتے امامؑ کا یہ قدم رکاوٹ بنتا تھا کہ وہ مالی مشکلات کی وجہ سے کہیں عباسی حکومت کا طرفدار نہ بن جائے اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلانا شروع کر دے۔ ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: میں مالی حالات کا شکار ہو گیا میں سوچ رہا تھا کہ اپنی مالی مشکلات کا تذکرہ امام (ع) کو خط لکھ کر ارسال کروں لیکن مجھے شرم محسوس ہو رہی تھی لیکن جب میں اپنے گھر پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ امامؑ نے سو درہم بھیجے ہیں اور ایک خط میں انہوں نے تحریر کیا کہ جب بھی تمہیں ضرورت محسوس ہو تو شرم نہ کرنا ہم سے مطالبہ کرنا اور خدا کی مدد سے تم اپنی مراد حاصل کر لو گے۔ امام حسن عسکری (ع) کی منجملہ سیاسی سرگرمیوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپؑ نے شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود اپنے چاہنے والوں کو سیاسی تقویت پہنچائی کیونکہ شیعوں کے بڑی بڑی شخصیات سیاسی دباؤ کا شکار تھیں لہذا امام (ع) انہیں صبر و تحمل کی تلقین کرتے ہوئے سیاسی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا کرتے۔ امام (ع) نے علی بن حسین بن بابویہ کو ایک خط میں لکھا: ہمارے شیعہ میرے بیٹے کے ظہور تک مسلسل غم و اندوہ کا شکار رہیں گے میرا بیٹا وہ ہے جس کے بارے میں رسول خداؐ نے بشارت دی کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہے۔ امام حسن عسکری (ع) کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ دیگر ائمہؑ کی نسبت خدا کی جانب سے عطا کردہ علمی صلاحیتوں کو زیادہ واضح کرتے کیونکہ آپؑ کی زندگی کے حالات کافی ناسازگار تھے بالخصوص جب امام ھادی علیہ السلام کو سامراء منتقل کیا گیا تو آپؑ شدید کنٹرول میں تھے جس کے نتیجہ میں بہت سے شیعوں کے دلوں میں بھی شک و تردید پیدا ہو گیا لہذا امام (ع) ان کی ہدایت اور گمراہوں سے ان کی نجات کے لئے بعض مزید علمی صلاحیتوں اور غیبی امداد کا سہارا لیتے۔ امام (ع) کی کاوشوں کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپؑ کا زمانہ ایسا تھا جس میں ہر طرف سے مختلف قسم کی افکار اسلامی معاشرہ کو دھمکا رہی تھیں لیکن آپؑ نے اپنے آباء و اجداد کی طرح ایک لمحہ بھی غفلت نہیں برتی اور اسلام مخالف تمام قسم کے منحرفانہ مکاتب فکر منجملہ صوفیوں، غالیوں، واقفیوں وغیرہ کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا۔ تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کا زمانہ عباسی حکومت کا بدترین دور شمار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ حکام زمانہ کی عیش و عشرت کی وجہ سے بہت سی اسلامی اقدار کا خاتمہ ہو چکا تھا لہذا اگر امام (ع) کی مسلسل تلاش و کوشش نہ ہوتی تو عباسی حکومت کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا خاتمہ ہو جاتا اگرچہ امام (ع) پر عباسی حکومت کا مکمل کنٹرول تھا لیکن اس کے باوجود بہت سے اسلامی مقامات پر امام (ع) کے اپنے نمائندے پائے جاتے تھے اور اس کے نتیجہ میں آپؑ مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہتے تھے بہت سے شہروں میں مساجد اور دینی مراکز امام (ع) کے حکم سے تعمیر کئے گئے، منجملہ شہر قم میں مسجد امام حسن عسکری (ع)۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام (ع) اپنی امامت اور اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی تمام قسم کی مشکلات اور کمیوں کو دور کرنے کے درپے تھے۔ امام حسن عسکری (ع) کے دور میں سیاسی دباؤ اور محدودیت کی دو وجہیں تھیں ایک وجہ عراق میں شیعوں کے لئے حالات سازگار ہو رہے تھے اور وہ عباسی خلفاء کی حکومت کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ امامت الہی امام علی (ع) کے بیٹوں میں باقی ہے اور دوسری جانب سے اس زمانہ میں صرف امام عسکری (ع) ہی تھے جو اس خاندان کی ممتاز شخصیت تھی، عباسی حکومت کو معلوم تھا کہ مھدی موعود (عج) امام حسن عسکری (ع) کی نسل سے ہوں گے لہذا ان کی کوشش تھی امام (ع) کے بیٹے کو قتل کردیں لہذا سخت دباؤ اور سختیوں میں امام (ع) پر مکمل کنٹرول رکھے ہوئے تھی۔
منبع: hawzah.net
امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟
قسط 1
مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا؟
اِس سوال پر اسلامی تاریخ کے ہردور میں اظہارِ خیال کیاگیا ہے اور اِس تحریک اور قیام کے مختلف مقاصد ومحرکات بیان کئے گئے ہیں۔اظہارِ خیال کرنے والے بعض حضرات نے انتہائی جزئی مطالعے، کوتاہ فکری، کسی خاص فکری رجحان سے وابستگی یا بدنیتی کی بنا پرامام حسین ؑ کے قیام کا مقصد ایسی چیزوں کو قرار دیا ہے جو اسلام کی روح، تاریخی حقائق، امام حسین ؑ کی شخصیت اور آپ ؑ کے مقامِ عصمت وامامت کے یکسرمنافی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ نواسہ رسول کا اقدام نسلی یا قبائلی چپقلش کا نتیجہ تھا، یا امام ؑ نے امت کے گناہوں کی بخشش کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیاوغیرہ وغیرہ اِسی قسم کے مقاصد میں سے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مصنفین، شعرااور مقررین بھی، بے سوچے سمجھے ایسے مقاصد کی ترویج اور تشہیر کیا کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بھرپور کام کی ضرورت اب بھی باقی ہے اور اِس سلسلے میں مختلف زاویہ نگاہ سے جائزے اور تحقیق کاکام جاری رہنا چاہیے۔ دو مضامین پر مشتمل زیرِنظر کتابچہ اِسی جذبے اور خواہش کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔ پہلا مضمون حوزہ علمیہ قم کے ممتازعالمِ دین آیت اللہ ابراہیم امینی سے ایک انٹرویو ہے، جو امام خمینی علیہ الرحمہ کی چھٹی برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار بعنوان ” امام خمینی و فرہنگِ عاشورا“ کے موقع پر علامہ امینی سے کیا گیاتھا۔ اِس انٹرویو میں جنابِ عالی نے امام حسین ؑ کے کلمات کی روشنی میں آپ ؑ کے قیام کا مقصد واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا مضمون بھی حوزہ علمیہ قم ہی کی ایک علمی شخصیت حجت الاسلام محمد باقر شریعتی سبزواری کی تحریر ہے، جس میں اُس دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے امام حسین ؑ کے فرامین ہی کے ذریعے امام ؑ کی تحریک کے مقصد کی وضاحت کی گئی ہے۔
امید ہے امام حسین ؑ کی تحریک کو سمجھنے اور اُس سے سبق لیتے ہوئے دورِ حاضر میں اپنے فریضے کے تعین کے سلسلے میں تمام پڑھنے والوں خصوصاً جواں نسل کے لیے اِن مضامین کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔
امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟
سوال: امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کے ذریعے کیا ہدف یا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟
شہادت، احیائے اسلام، اصلاحِ امت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، خدا کی طرف سے عائد فریضے کی ادائیگی، یزید کی ظالم حکومت کی سرنگونی اور عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام، وہ نمایاں نقطہ ہائے نظر ہیں جو امامؑ کی تحریک کی تفسیر اورآپ ؑ کے مقاصد و محرکات کی تشریح کے سلسلے میں محققین اوراہلِ نظرافراد کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں۔ عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اہداف اور اس بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے اورآپ اپنی رائے کا دوسری آرا، خیالات اور نظریات سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں؟
* امام حسین ؑ کے قیام کے ہدف و مقصد کے بارے میں مختلف نظریات اور خیالات پائے جاتے ہیںمصنفین و متکلمین نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مختلف مقاصد بیان کیے ہیںکبھی اس تحریک کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کاپورا دستورِ عمل (program)خداوندِ عالم کی جانب سے مقرر کردیا گیا تھا اور امام حسین ؑ کا کام محض اس کو جامہ عمل پہنانا تھا اور آپ ؑ پر لازم تھا کہ خداوندِ متعال اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے آپ ؑ جن کاموں کے لیے مامور کیے گئے ہیں انہیں بغیر کسی معمولی ردوبدل کے قدم بقدم انجام دیں۔
بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں امام حسین ؑ کی تحریک ایک سوچی سمجھی تحریک تھییہ لوگ کبھی اس تحریک کے مقصد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کبھی حکومتِ وقت یعنی یزید کی حکومت سے ٹکراؤ اور بسا اوقات حکومتِ اسلامی کے قیام کے لیے جدوجہد قرار دیتے ہیںکچھ دوسرے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ امام حسین ؑ پر ایک فریضہ عائد ہوتا تھا اورآپ ؑ نے تعبداً اپنی یہ ذمے داری پوری کی، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔ ۔
اِس بارے میں اور دوسری باتیں بھی بیان اور تحریر کی جاتی ہیںباوجود یہ کہ اس بارے میں کافی کتب تحریر کی گئی ہیں اور مختلف نظریات اور افکار کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اب تک یہ مسئلہ بخوبی واضح نہیں ہوا کہ اس تحریک میں امام حسین ؑ کی سوچ کیا تھی۔
یہ محض تاریخی بحث نہیں، بلکہ ایک ایسی بحث ہے جو تحریکِ اسلامی، حکومتوں، حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ایسے افراد کے لیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں بطورِ کلی ایک مشعلِ راہ ہوسکتی ہےامام حسین ؑ جو ایک معصوم فرد اور امام تھے، اُن کا طرز و اسلوب قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہےافسوس کی بات ہے کہ جس طرح اِس مسئلے کی وضاحت ہونی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی اور نہ ہی (امام ؑ کی) اس تحریک سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے۔
امام حسین ؑ کے کلمات آپ ؑ کے ہدف اور محرکات کی ترجمانی کرتے ہیں اِس موضوع پر تحقیق اور اِس کی تشریح کے لیے ایک مفصل اور جداگانہ تالیف کی ضرورت ہے جو سرِ دست اِس مختصر موقع اور وہ بھی انٹرویو کی صورت میں ممکن نہیںالبتہ مختصر طور پر کہوں گا کہ ہمیں امام حسین ؑ کے مقصد اور ہدف کو خودآنجناب ؑ کے کلمات سے اخذ کرنا چاہیےجن لوگوں نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد پر گفتگو کی ہے، اُن میں سے بھی اکثر نے امام ؑ کے کلمات کا سہارا لیا ہےلیکن کیونکہ امام حسین ؑ کے کلمات بکھرے ہوئے اور}موقع محل کی مناسبت سے{ مختلف ہیں اِس لیے اِن حضرات میں سے ہر ایک نے ان میں سے کسی ایک حصے کو لے کر اس سے استفادہ کیا ہے اور دوسرے مفاہیم سے صرفِ نظر کیا ہے اور صرف کسی ایک پہلو پر اپنی فکر مرکوز رکھی ہے۔
ہم ابتدا میں امام حسین ؑ کے ان کلمات میں سے کچھ کو بیان کریں گے جو آپ ؑ نے اپنے ہدف کے بارے میں فرمائے ہیں اور اس کے بعد ان کی جمع بندی کر کے ان سے نتیجہ اخذ کریں گےاگر ہم ان مختلف کلمات کا باہم اور یکجا کرکے تجزیہ کریں، تو سب ایک ہی راہ کی وضاحت کرتے ہیں، اور یوں ان میں تضادا ور اختلاف نظر نہیں آتا، بلکہ یہ سب ایک ہی ہدف کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ ہدف بھی بخوبی روشن اور واضح ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت
روایات میں ہر خوشی و غمی کی مناسبت پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت ،مجالس ،محافل اور ان کی عزاداری کی رغبت دلائی گئی ہے چونکہ اگر ذکر حسینؑ زندہ ہے تو اسلام اور توحید زندہ ہے اس طرح قیامت تک کے لیے امام حسین علیہ السلام کے طفیل اسلام کی حفاظت ہوتی رہے گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ کَرْبَلَاءَ حَرَماً آمِناً مُبَارَکاً قَبْلَ أَنْ یَتَّخِذَ مَکَّةَ حَرَماً‘‘خداوندمتعال نے کربلا کو امن و برکت کا حرم مکہ معظمہ سے پہلے قرار دیا تھا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ حَجَّ أَلْفَ حَجَّةٍ ثُمَّ لَمْ یَأْتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ(ع) لَکَانَ قَدْ تَرَکَ حَقّاً مِنْ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ سُئِلَ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ حَقُّ الْحُسَیْنِ ع مَفْرُوضٌ عَلَى کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘اگر تم میں سے کوئی ہزار مرتبہ حج انجام دے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے نہ جائے تو اس نے یقینی طور پر حقوق الہٰی میں سے حق کو ترک کردیا ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اسے مؤاخذہ کیا جائے گا۔پھر حضرت نے ارشاد فرمایا:امام حسین علیہ السلام کا حق ہر مسلمان پر واجب ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ لَمْ یَأْتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ(ع) وَ هُوَ یَزْعُمُ أَنَّهُ لَنَا شِیعَةٌ حَتَّى یَمُوتَ فَلَیْسَ هُوَ لَنَا بِشِیعَةٍ وَ إِنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَهُوَ مِنْ ضِیفَانِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کے نورانی مرقد کی زیارت کے لیے نہ جائے اور یہ تصور کرتا ہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے اور اسی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے تو وہ ہمارا شیعہ ہی نہیں اور اگر جنت میں بھی چلا جائے تو بہشتیوں کا مہمان ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَوَّضَ الْحُسَیْنَ(ع)مِنْ قَتْلِهِ أَنْ جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِی ذُرِّیَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِی تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ وَ لَا تُعَدَّ أَیَّامُ زَائِرِیهِ جَائِیاً وَ رَاجِعاً مِنْ عُمُرِهِ‘‘خداوندمتعال نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے عوض امامت کو اُن کی نسل میں سے قرار دیا،اُن کے مقتل کی مٹی میں شفاء قرار دی ،اُن کے مرقد منور کو مستجاب الدعا قرار دیا اور اُن کے زائرکے آمد و رفت کے ایام کو اس کی زندگی میں سے شمار نہیں کیا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) بِشَطِّ الْفُرَاتِ کَمَنْ زَارَ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ‘‘جو بھی شط فرات کے نزدیک امام حسین کی زیارت کرے وہ اس طرح ہے جس طرح اس نے عرش پر خداوندمتعال کی زیارت کی ہو۔
حضرت امام جعفرصادق اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیمتالسلام سے ایک ہی مضمون پر مبنی روایت نقل ہوئی ہے جس میں یہ دو بزرگوار امام ارشاد فرماتے ہیں:’’من زار الحسین(ع)عارفا بحقه غفر الله له ما تقدم من ذنبه و ما تأخر‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے ساتھ ان کی قبر مطہر کی زیارت کرے خداوندمتعال اس کے تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف کردے گا
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 13 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔