تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1064
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 693715
حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی مختصر سوانح حیات
حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام علی(علیہ السلام) اور حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) کی بیٹی ہیں جو سنہ 5 یا 6 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ امام حسین(علیہ السلام) کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں اور 10 محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو جنگ کے خاتمے کے بعد اہل بیت(علیھم السلام) کے ایک گروہ کے ساتھ لشکر یزید کے ہاتھوں اسیر ہوئیں اور کوفہ اور شام لے جائی گئیں۔ انھوں نے اسیری کے دوران، دیگر اسیروں کی حفاظت و حمایت کے ساتھ ساتھ، اپنے غضبناک خطبوں کے توسط سے بےخبر عوام کو حقائق سے آگاہ کیا۔ حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) نے اپنی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے تحریک عاشورا کی بقاء کے اسباب فراہم کئے۔ تاریخی روایات کے مطابق سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا) سنہ 63 ہجری کو دنیا سے رخصت ہوئیں اور دمشق میں دفن ہوئیں۔
آپ کی ولادت:
حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے معتبر ترین روایت کے مطابق آپ کی ولادت ۵ جمادی الاول سن ۶ ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔
رسول خدا ص کا گریہ کرنا:
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونچی آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔ جناب فاطمہ س نے آپ ص سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ ص نے فرمایا: "بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی"۔
والدین
حضرت زینب(س) کے والد گرامی امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) اور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ) ہیں۔
اسم مبارک
روایات میں ملتا ہے کہ جب حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت مبارک ہوئی تو پیغمبر اکرم ص مدینہ میں نہیں تھے۔ لہذا حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حضرت امام علی علیہ السلام کو کہا کہ آپ اس بچی کیلئے کوئی نام انتخاب کریں۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول خدا ص کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر سے واپس آئے تو حضرت علی علیہ السلام نے انہیں یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس بچی کا نام آپ انتخاب کریں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کا نام خدا انتخاب کرے گا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ "خدا نے اس بچی کا نام "زینب" رکھا ہے۔
القاب
ثانیِ زہرا، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ہاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغری، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء۔
کنیت
حضرت زینب(ع) کی کنیتوں میں ام کلثوم اور ام المصائب معروف و مشہور ہیں
حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی شادی:
آپ کی شادی ۱۷ ہجری میں اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند تھے اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جنکے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں۔
حضرت امام علی (ع) قرآن و حدیث کی روشنی میں
امام علی (ع)، قرآن کی نظرمیں
حضرت علی(ع) کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ھو ئی ھیں ، قرآن نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد آپ(ع) کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ھے ،اللہ کی نگاہ میں آپ(ع) کی بڑی فضیلت اوربہت اھمیت ھے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ(ع) کی شان میں تین سو آیات نازل ھو ئی ھیں[1] جو آپ(ع) کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ھے۔
یہ بات شایان ذکر ھے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نھیں ھوئیں آپ کی شان میں نازل ھونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ھیں :
۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ھوئی ھیں ۔
۲۔وہ آیات جو آپ(ع) اور آپ(ع) کے اھل بیت(ع)کی شان میں نازل ھو ئی ھیں ۔
۳۔وہ آیات جو آپ(ع) اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ھو ئی ھیں ۔
۴۔وہ آیات جو آپ(ع) کی شان اور آپ(ع) کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ھو ئی ھیں ۔
ھم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رھے ھیں :
آپ(ع) کی شان میں نازل ھونے والی آیات
آپ(ع)کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ھوئی ھیں ھم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ھیں :
۱۔اللہ کا ارشاد ھے :”انماانت منذرولکل قوم ھاد“۔[2]
”آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ھوں اور ھر قوم کے لئے ایک ھادی اور رھبر ھے “۔
طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے کہ جب یہ آیت نازل ھو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:”اناالمنذرولکل قوم ھاد “،اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:”انت الھادي بک یھتدي المھتدون بعدي“۔[3]
”آپ ھا دی ھیں اور میرے بعد ھدایت پانے والے تجھ سے ھدایت پا ئیں گے “۔
۲۔خداوند عالم کا فرمان ھے :”وتعیھااذن واعیة“۔[4]
”تاکہ اسے تمھارے لئے نصیحت بنائیںاور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں“۔
احادیث کی روشنی میں امام علی (علیہ السلام) کے فضائل
سوال: اہل سنت کی کتابوں میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نزدیک ترین فرد کے عنوان سے کس شخص کو شناخت کرایا گیا ہے؟
اجمالی جواب:
تفصیلی جواب: اہل سنت کے یہاں بعض موجود احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ) سے قریب ترین شخص کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔
۱۔انس بن مالک کا بیان ہے کہ میں ایک روز رسول اسلام (ص) کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ لے کر حاضر ہوا، رسول اسلام (ص)نے فرمایا بسم اللہ کہہ کر اس میں سے کچھ تناول فرمایا اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور عرض کی بار الہا ! تو اپنے اور میرے نزدیک بہترین شخص کو میرے پاس بھیج دے ، اسی اثناء میں اچانک علی( علیہ السلام ) تشریف لائے اور دروازہ پر دستک دی میں نے دروازہ پر جا کر پوچھا کہ تم کون ہو تو انھوں نے جواب دیا میں علی(علیہ السلام) ہوں ، میں نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص)اس وقت مشغول ہیں ، انس بیان کرتا ہے کہ رسول اسلام (ص)نے دوسرا لقمہ لیا اور وہی دعا کی، پھر دوبارہ دق الباب ہوا میں نے پوچھا کون ہے کہا میں علی ہوں ، میں نے دوبارہ کہدیا کہ رسول اسلام (ص)کام میں مشغول ہیں اس کے بعد رسول اسلام پھر ایک اور لقمہ تناول فرمایا اور وہی دعا کی، اسی وقت بار دیگر دق الباب ہوا میں نے پوچھا کون ہے ۔انہوں نے دوبارہ بلند آواز سے فرمایا میں علی ہوں اسی اثناء میں پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا اے انس دروازہ کھولو ، انس بیان کرتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) گھر میں داخل ہوگئے تو رسول اسلام (ص)نے میری اور علی (علیہ السلام )کی طرف نظریں اٹھاکے دیکھا اور علی (علیہ السلام )سے مخاطب ہو کر فرمایا میں حمد خاص کرتا ہوں اپنے پروردگار کی جو میں نے اس سے چاہا تھا اسنے مجھے دیدیا ۔ میں ہر لقمہ پر خدا سے دعا کررہا تھا کہ اے پروردگاراپنے اور میرے نزدیک اپنی مخلوق میں سے بہترین اورمحبوب ترین شخص کو میرے پاس بھیجدے اور ، تم وہی شخص ہو جس کو میں بلانا چاہتا تھا (۱)
اس حدیث شریف کواحمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں (۲) ترمذی نے سنن ترمذی میں (۳) طبرانی نے المعجم الکبیر میں ّ(۴) حاکم نے اپنی کتاب المستد رک الصحیحین میں (۵) اور اسی طرح دوسرے لوگوں نے نقل کیاہے ۔
اس حدیث کا سلسلہ سنداتنا معتبر ہے کہ اہلسنت کے بعض علماء نے صراحت سے اس حدیث کی سند کو صحیح بتایا ہے جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب (مستدرک ) اور ذھبی نے اپنی کتاب (تذکر ة الحفاظ) میں اس حدیث کے صحیح ہو نے کی تصریح کی ہے ۔
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی (علیہ السلام) اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین مخلوق ہیں اور علی (علیہ السلام ) کی یہ برتری اور فضیلت عام ہے جس میں انبیاء (علیہم السلام)کو بھی شامل ہے خصوصاً بعض روایات میں اس طرح سے وارد ہوا ہے (اللھمّ اتینی باحبّ خلقک الیک من الاولین و لآخرین )(۶)اے پروردگار اولین اورآخرین مخلوق میں جو تیرا محبوب ترین بندہ ہو اس کو میرے پاس بھیجدے ۔
۲۔سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب تذکرة الخواص میں صحیح سند کے ساتھ سلمان سے نقل کیا ہے کہ رسول خد ا (ص) نے فرمایا :
کنتُ انا وَ علی بن ابی طالب نوراً بین یداللہ تعالی قبل ان یخلق آدم باربعة الآف عاماً فلما خلق آدم قسّم ذٰلک النور فجزءٌ انا و جزءٌ علی (۷)
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
نام، القاب
نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔
کنیت
آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔
والدین
آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں :
” ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔”پھر عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :
” وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں” تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :
: غدیر خم کا واقعہ
ہجر ت کے دسویں سال پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حج کا ارادہ کیا اور اپنے حج پر جانے کی سب کو خبر کی ۔
بہت سے گروہ مدینہ آگئے تاکہ مناسک حج آپ کے ساتھ بجالائیں اور آپ کی پیروی کریں ۔
حجة الوداع، حجة الاسلام، حجة البلاغ، حجة الکمال اور حجة التمام(۱) یہ وہ نام ہیں جو ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس آخری حج کے رکھے گئے ۔
چوبیس یا پچیس ذی قعدہ کو شنبہ کے روز (جب ماہ ذی الحجہ کاچاند نظر آنے میں پانچ یا چھے روز باقی تھے)غسل اور لباس احرام باندھ کر مدینہ سے پیدل روانہ ہوتے ہیں اور اپنی بیویوں کو بھی اونٹوں کے کجاؤں پر سوار کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔
تمام اہل بیت، مہاجرین و انصار اور عربوں کے دوسرے بہت سے قبائل آپ کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوتے ہیں(۳) ۔
آبلہ یا گرمی کی بیماری پھیلنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو آپ کی ہمراہی نصیب نہ ہوسکی لیکن اس کے باوجود اس قدر اژدھام تھا جس کی تعداد خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ، حجة الوداع کے حاجیوں کی تعداد ۹۰ ہزار یا اس سے بھی زیادہ بیان ہوئی ہے ۔
حج کے وقت اس اژدھام میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ، اہل مکہ نیز یمن کی ایک جماعت حضرت علی بن ابی طالب(علیہ السلام) کی ہمراہی میں آپ کے ساتھ مکہ پہنچی(۴) ۔
مناسک حج کو انجام دینے کے بعد تمام حاجی مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ، راستہ میں ایک جگہ کانام جحفہ ہے جہاں سے مدینہ، مصر اور عراق کا راستہ الگ الگ ہوجاتا ہے اور اسی کے نزدیک ایک تالاب واقع ہے جس کا نام ”غدیر خم“ ہے ۔
اٹھارہ ذی الحجہ کو جمعرات (۵)کے روز جب یہ یہ قافلہ اس تالاب کے پاس پہنچتا ہے تو خداوند عالم کی طرف سے جبرئیل ا مین نازل ہوتے ہیں : ”یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک“ (۶) ۔
ائے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو کامل طور سے لوگوں تک پہنچا دو ۔
خداوندعالم نے حکم دیا کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو چراغ ہدایت اور دین کاعلمبردار معین کردو اور سب کو آپ کی ولایت اور اطاعت کا حکم دو ۔
رسول گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حکم دیا : جو لوگ آگے چلے گئے ہیں ان کو روکا جائے اور چو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے ۔
گرمی کا دن بہت زیادہ گرم تھا ، حاجیوں نے اپنی عبا کا آدھا حصہ سر پر اور آدھاحصہ اپنے پیروں کے نیچے رکھ رکھا تھا اور ایک درخت پر کپڑا ڈال کر اس کے ذریعہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر سایہ کررکھا تھا ، نماز ظہر کا وقت قریب ہو اتو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نماز پڑھائی ۔
نماز کے بعد حاجیوں(۸)کے درمیان کجاؤں کے منبر پر تشریف لے گئے(۹) اوربلند آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا : ”الحمد للہ و نستعینہ و نومن بہ، و نتوکل علیہ، و نعوذ باللہ من شرور انفسنا، و من سیئات اعمالنا، الذی لاھادی لمن اضل، ولا مضل لمن ھدی ،و اشھد ان لا الہ الا اللہ،و ان محمدا عبدہ و رسولہ“۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 11 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔