تازه ترین عناوین
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
- اولاد کے حقوق
- نگاهى به تولد و زندگى امام زمان(عج)
- بنجامن نیتن یاہو کا ایران مخالف دورہ امریکا
- عراق؛ صوبہ دیالہ کے علاقے السعدیہ اور جلولاء سے داعش کا صفایا
آمار سایت
- مہمان
- 50
- مضامین
- 456
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 553861
نزول اور شناخت قرآن
تحریر: سید عابد حسین
This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ
الم (1) ذلِكَ الْكِتابُ لا رَيْبَ فيهِ هُدىً لِلْمُتَّقينَ (2)
قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کا امکان نہیں اور یہ کتاب تحریف سے بھی پاک ہے۔ اس عظیم کتاب کو خدا نے بشریت کی هدایت کے لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا۔هر چیز کی بهار هوتی هے قرآن کی بهار ماه مبارک رمضان هے۔ اسی مبارک مهینے میں قرآن مجید شب قدر کی رات نازل ہوا۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَ الْفُرْقانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَ مَنْ كانَ مَريضاً أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لا يُريدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سوره بقره 185) اِنَّا أَنْزَلْناهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ (سوره قدر1)
روایات میں تاکید هوئی هے که شب قدر رمضان مبارک کے آخری عشره کی راتوں میں سے ایک رات هے. مجمع البیان میں ابی بکر س روایت نقل کیے هی که شب قدر کو آخری عشره میں تلاش کرے اس مهینے میں زیاده سے زیاده قرآن مجید کی تلاوت کی تاکید کی گئی هے ۔یهاں ایک سوال ذهنون میں آجاتا هے که آیا اس کتاب کو 23 سال کے عرصے میں نازل نهیں کیا گیا ؟ پس کیسے شب قدر کی ایک رات میں نازل هوئی ؟اس حوالے سے تفاسیر کی کتابوں کا مطالعه کرے تو معلوم هو جاتا هے که قرآن کریم دو طریقوں نازل هوا هے)نزول تدریجی و نزول دفعی یعنی لوح محفوط سے بيتالمعمور په( اس کی طرف اشاره خود قرآن کریم میں ملتا هے که ایک دفعه تنزیل کا لفظ استعمال هوا هے ایک دفعه انزال کا لفط استعمال هوا هے ۔تنزیل نزول تدریجی کو کها جاتا هے اور انزال نزول دفعی کو کها جاتا هے۔ دونوں الفاظ کی طرف قرآن کریم میں اشاره هوا هے۔ مفسرین کے درمیان زیاده تر بحث نزول دفعی کے حوالے سے هے, علامه طباطبائی تفسیر المیزان میں فرماتے هیں: قرآن حامل دو وجود هے وجود ظاهری و وجود باطنی که بغیر کسی تجزیه,الفاظ اور تفصیل سے تها جو یکدفعه شب قدر کی رات قلب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل هوا اور وجود ظاهری به تدریج 23 سال کے عرصے میں نازل هوا۔جو قرآن آجکل همارے هاتھوں میں هے یہ وہی کلام اللہ ہے جس میں کسی قسم کی تحریف نهیں هوئی هے۔ بحیثیت مسلمان همارا اعتقاد هے کہ قرآن کریم ميں کسی صورت بھی تحربف ممکن نهیں هے۔ شہید مرتضی مطہری کتاب آشنائی با قرآن میں لکھتے ہیں: اگر ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرے تو تین بنیادی چیزیں اور تین اصولوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں :
پہلا اصل: انتساب ہے یعنی بغیر کسی شک و شبہ کے جو آج کل قرآن مجید کے نام سے تلاوت ہوتی ہے عین وہی کتاب اللہ ہے جو پرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور بشریت کیلئے پیش کئے ہیں۔ اس کی گواهی اسی کتاب میں موجود هے۔
)علمائے شیعہ اس بات پہ اجماع رکھتے ھیں قرآن
میں تحریف نھی ھوئی ھے کچھ ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر شیعوں پہ تحریف قرآن
کے قائل ھونے کا الزام اور تھمت لگانا قابل قبول نھی قرآن خود تحریف نہ ھونے کی
گواہی دے رھا ھے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون(
دوسرا اصل: اس کے مطالب ہیں یعنی قرآن کہیں سے لیا نہیں بلکہ جدید مطالب بیان کرتے ہیں۔
تیسرا اصل: بنیاد قرآن کا الہٰی هونا ہے یعنی معارف قرآن ماورائے ذہن بشریت ہے جس سے فکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فیض پہنچاتے رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف حامل وحی پروردگار تھے۔ آپ صلی علیہ و آلہ وسلم نے قرآن کو ایجاد نہیں کیا بلکہ توسط روح القدس یا جبرائیل علیہ السلام پروردگار کی اذن سے آپ کو عطا کیا گیا۔ اس میں تمام بشریت کے لئے هدایت موجود هے۔ تاریکی سے روشنی کی طرف رهنمائی کرتا هے قرآن اپنی تعریف میں کہتا ہے کہ قرآن نازل ہو ہے کہ لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لے جانے کے لئے۔
عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
روی عن القاضی نور اللہ عن الصادق علیہ السلام :
ان اللہ حرما و ھو مکہ الا ان رسول اللہ حرما و ھو المدینۃ اٴلا و ان لامیر الموٴمنین علیہ السلام حرما و ھو الکوفہ الا و ان قم الکوفۃ الصغیرۃ اٴلا ان للجنۃ ثمانیہ ابواب ثلاثہ منہا الی قم تقبض فیہا امراٴۃ من ولدی اسمہا فاطمۃ بنت موسی علیہا السلام و تدخل بشفاعتہا شیعتی الجنۃ باجمعہم ۔
امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا: ""خداوند عالم حرم رکھتا ہے اور اس کا حرم مکہ ہے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ) حرم رکھتے ہیں اور ان کا حرم مدینہ ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام حرم رکھتے ہیں اور ان کا حرم کوفہ ہے۔ قم ایک کوفہ صغیر ہےجنت کے آٹھ دروازوں میں سے تین قم کی جانب کھلتے ہیں ، پھر امام علیہ السلام نے فرمایا :میری اولاد میں سے ایک عورت جس کی شہادت قم میں ہوگی اور اس کا نام فاطمہ بنت موسیٰ ہوگا اور اس کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔۔
قال الصادق علیہ السلام من زارھا عارفا بحقہا فلہ الجنۃ
امام صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں کہ جس نے معصومہ علیہا السلام کی زیارت اس کی شان ومنزلت سے آگاہی رکھنے کے بعد کی وہ جنت میں جا ئے گا
اٴلا ان حرمی و حرم ولدی بعدی قم
امام صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں آگاہ ہو جاوٴ میرا اور میرے بیٹوں کا حرم میرے بعد قم ہے ۔
حضرت معصومہ علیہا السلام امام رضاعلیہ السلام کی نظر میں
عن سعد عن الرضا علیہ السلام قال : یا سعد من زارھا فلہ الجنۃ ۔
ثواب الاٴعمال و عیون اخبار الرضا علیہ السلام: عن سعد بن سعد قال : ساٴلت ابا الحسن الرضا علیہ السلام عن فاطمۃ بنت موسی بن جعفر علیہا السلام فقال : من زارھا فلہ الجنۃ
سعد امام رضاعلیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے سعد جس نے حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کی اس پر جنت واجب ہے ۔
”ثواب الاعمال“ اور ”عیون الرضا “ میں سعد بن سعد سے نقل ہے کہ میں نے امام رضاعلیہ السلام سے سیدہ معصومہ علیہا السلام کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کا صلہ بہشت ہے
کامل الزیارۃ : عن ابن الرضا علیہ السلام قال: من زار قبر عمتی بقم فلہ الجنۃ
امام جوادعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس نے میری پھوپھی کی زیارت قم میں کی اس کے لئے جنت ہے
حضرت معصومہ علیہا السلام کا مقام و منزلت
اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ معصومہ علیہا السلام کو معصومہ کا لقب کس نے دیا؟
معصومہ کا لقب حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنی بہن کو عطا کیا۔ آپ اس طرح فرماتے ہیں:
من زار المعصومۃ (سلام اللہ علیہا)بقم کمن زارنی
جس نے معصومہ علیہا السلام کی زیارت قم میں کی وہ اس طرح ہے کہ اس نے میری زیارت کی
اب جب کہ یہ لقب امام معصوم علیہ السلام نے آپ کو عطا فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ان کی ہم رتبہ ہیں ۔
امام رضاعلیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ وہ شخص جو میری زیارت پر نہیں آسکتا وہ میرے بھائی کی زیارت شہرری میں اور میری بہن کی زیارت قم میں کرے تووہ میری زیارت کا ثواب حاصل کرلے گا
عالمی یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا خطاب
بسم الله الرحمن الرحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدین
ساری دنیا کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں، اللہ تعالی سے مبارک مہینے رمضان میں ان کی عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں، عید سعید فطر کی انھیں پیشگی مبارکباد دیتا ہوں اور ضیافت خداوندی کے اس مہینے میں موجود رہنے کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
آج یوم قدس ہے۔ وہ دن جو امام خمینی کی جدت عمل سے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے بارے میں مسلمانوں کی آوازوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ بن گیا۔ ان چند عشروں میں اس سلسلے میں اس کا بنیادی کردار رہا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ اقوام نے یوم قدس کا خیر مقدم کیا اور اسے اولین ترجیح یعنی فلسطین کی آزادی کا پرچم بلند رکھنے کے مشن کے طور پر منایا۔ استکبار اور صیہونیت کی بنیادی پالیسی مسلمان معاشروں کے اذہان میں مسئلہ فلسطین کو بے رنگ کر دینا اور فراموشی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ سب کا فوری فریضہ اس خیانت کا سد باب ہے جو خود اسلامی ممالک میں دشمن کے سیاسی اور ثقافتی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا قضیہ نہیں ہے جسے مسلمان اقوام کی غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات مملکت فلسطین کے غصب کر لئے جانے اور وہاں صیہونیت کا کینسر وجود میں آنے کے بڑے المئے کی یادہانی کرانا ہے۔ ماضی قریب کے ادوار کے انسانی جرائم میں اس پیمانے اور اس شدت کا کوئی اور جرم رونما نہیں ہوا۔ ایک ملک کو غصب کر لینا اور عوام الناس کو ہمیشہ کے لئے ان کے گھربار اور موروثی سرزمین سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل و جرائم، کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی کی المناک ترین شکل میں اور دسیوں سال تک اس تاریخی ستم کا تسلسل، حقیقت میں انسان کی درندگی اور شیطانی خو کا نیا ریکارڈ ہے۔
روز قدس عالمی
قدس ، پہلا قبلہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے یہ فلسطین کے ان دسیوں لاکھ مسلمانوں کی اصل سرزمین ہے جنہیں عالمی استکبار نے غاصب صیہونیوں کے ہاتھوں سنہ 1948 میں اپنے وطن سے جلاوطن کرکے قدس کی غاصب ، صیہونیوں کے تصرف میں دےدیا تھا ۔اس سامراجی سازش کے خلاف فلسطینی مسلمانوں نے شروع سے ہی مخالفت کی اور ان مظلوموں کی قربانی اور صبر و استقامت کے سلسلے میں پوری دنیا کے حریت نواز ، بیدار دل انسانوں نے حمایت کی اور اسی وقت سے فلسطین کا مسئلہ ایک سیاسی ۔ فوجی جد وجہد کے عنوان سے عالم اسلام کے سب سے اہم اور تقدیرساز مسئلے کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے ۔اسلامی ایران کی ملت و حکومت نے بھی ، اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کے بعد سے غاصب صیہونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے مسئلے کو اپنا اولین نصب العین قراردے رکھا ہے اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو روز قدس قراردے کر اس دن کو ستمگران تاریخ کے خلاف حریت و آزادی کے بلند بانگ نعروں میں تبدیل کردیا ہے ۔اسلامی انقلاب کے فورا" بعد حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے صیہونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے لئے اس دن کو روز قدس اعلان کرتے ہوئے اپنے تاریخی پیغام میں فرمایا تھا : میں نے سالہائے دراز سے ، مسلسل غاصب اسرائیل کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ و خبردار کیا ہے اور اب چونکہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف ان کے وحشیانہ حملوں میں شدت آگئی ہے خاص طور پر جنوبی لبنان میں وہ فلسطینی مجاہدین کو نابود کردینے کے لئے ان کے گھروں اور کاشانوں پر پیاپے بمباری کررہے ہیں میں پورے عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ ان غاصبوں اور ان کے پشتپناہوں کے ہاتھ قطع کردینے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو جو قدر کے ایام ہیں فلسطینیوں کے مقدرات طے کرنے کے لئے ، روز قدس کے عنوان سے منتخب کرتا ہوں تا کہ بین الاقوامی سطح پر تمام مسلمان عوام فلسطینی مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت و پشتپناہی کا اعلان کریں ۔میں پورے عالم کفر پر مسلمانوں کی کامیابی کے لئے خداوند متعال کی بارگاہ میں دعاگو ہوں ۔اور اس اعلان کے بعد سے ہی روز قدس ، قدس کی آزادی کے عالمی دن کی صورت اختیار کرچکا ہے اور صرف قدس سے مخصوص نہیں رہ گیا ہے بلکہ عصر حاضر میں مستکبرین کے خلاف مستضعفین کی مقابلہ آرائی اور امریکہ اور اسرائیل کی تباہی و نابودی کا دن بن چکا ہے ۔روز قدس دنیا کی مظلوم و محروم تمام قوموں اور ملتوں کی تقدیروں کے تعین کا دن ہے کہ وہ اٹھیں اور عالمی استکبار کے خلاف اپنے انسانی وجود کوثابت کریں اور جس طرح ایران کے عوام نے انقلاب برپا کرکے وقت کے سب سے قوی و مقتدر شہنشاہ اور اس کے سامراجی پشتپناہوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا اسی طرح دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں کے عوام بھی اپنے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے انقلاب برپا کریں اور صیہونی ناسور کو دنیائے اسلام کے قوی و مقتدر پیکر سے کاٹ کر کوڑے دان میں پھینک دیں ۔روز قدس جرات و ہمت اور جواں مردی و دلیری کے اظہار کا دن ہے مسلمان ملتیں ہمت و جرات سے کام لیں اور مظلوم و محروم قدس کو سامراجی پنجوں سے نجات عطا کریں ۔روز قدس ان خیانتکاروں کو بھی خبردار کرنے کا دن ہے جو امریکہ کے آلۂ کار کی حیثیت سے غاصب قاتلوں اور خونخوار بھیڑیوں کے ساتھ ساز باز میں مبتلا ہیں اور ایک قوم کے حقوق کا خود ان کے قاتلوں سے سودا کررہے ہیں ۔روز قدس صرف روز فلسطین نہیں ہے پورے عالم اسلام کا دن ہے ، اسلام کا دن ہے قرآن کا دن ہے اور اسلامی حکومت اور اسلامی انقلاب کا دن ہے ۔اسلامی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا دن ہے ۔اگر اپنی اسلامی یکجہتی کی بنیاد پر لبنان کے حزب اللہی صیہونی طاقتوں کے خلاف 33 روزہ جنگ میں سرخرو اور کامیاب ہوسکتے ہیں تو فلسطینی مجاہدین بھی اگر خیانتکاروں کو اپنی صفوں سے نکال کر اتحاد و یکجہتی سے کام لیں اور پوری قوت کے ساتھ غاصب صیہونیوں کے خلاف میدان میں نکل آئیں تو یقینا" کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومے گي کیونکہ خدا نے وعدہ کیا ہے " اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثبات قدم عطا کردے گا ۔" اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کے لئے اسلام و قرآن اور کعبہ ؤ قدس کے تحفظ کے لئے ، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اور ایک ہوجائیں اور کفار و منافقین کو اسلامی مقدسات کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صیہونیوں کا تصرف ، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے ۔ دشمن مذہب و مسلک اور قومی و لسانی تفرقے ایجاد کرکے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کررہا ہے اب بھی وقت ہے کہ مسلمان ملتیں ہوش میں آئیں اور اسلامی بیداری و آگاہی سے کام لے کر ، فلسطینی مجاہدین کے ساتھ اپنی حمایت و پشتپناہی کا اعلان کریں ۔فلسطین کے محروم و مظلوم نہتے عوام ، صیہونیوں کے پنجۂ ظلم میں گرفتار لاکھوں مرد وعورت ، وطن سے بے وطن لاکھوں فلسطینی رفیوجی ،غیرت و حمیت سے سرشار لاکھوں جوان و نوجوان ہاتھوں میں غلیل اور سنگریزے لئے فریاد کررہے ہیں ،چیخ رہے ہیں ،آواز استغاثہ بلند کررہے ہیں کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کی برقراری کا انتظار کرنے والو ، فلسطینی مظلوموں کی مدد کرو قدس کی بازیابی کے لئے ایک ہوجاؤ ۔ہم فلسطینی ہیں فلسطینی ہی رہیں گے ۔ہم بیت المقدس کو غاصب صیہونیوں سے نجات دلائیں گے، ہم خون میں نہا کر مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حفاظت کریں گے ۔بس ہمیں مسلمانوں کی حمایت و پشتپناہی کی ضرورت ہے ۔
شہادت حضرت علی (ع) کی نگاہ میں:
[۱۶:۲۳, ۱۳۹۹/۲/۲۶] شہادت حضرت علی (ع) کی نگاہ میں:
✒️ : ارشد حسین
???? شہادت کا درجہ ایک ایسا عظیم مرتبہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا بلکہ یہ ان لوگوں کے حصے میں آجاتا ہے جو خدا وند متعال کے انتخاب شدہ ہوتے ہیں . پس جو شخص بھی راہ خدا میں اپنی جان کا نظرانہ پیش کرتا ہے وہ خدا کا محبوب ترین بندوں میں سے شمار ہوتا ہے لیکن ہم اس مقالے میں شہادت کو مولا علی علیہ السلام کی نگاہ سے بیان کرنے کی کوشش کرینگے کہ آپ (ع) حضرت رسول اللہ (ص) کے بعد اس کائنات کی افضل ترین شخصیت ہونے کے بعد بھی راہ خدا میں قتل ہوجانا اور راہ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنااپنے لۓ سعادت اور فخر سمجھتے تھے جس سے شہادت کی فضیلت و مقام واضح اور روشن ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کی دوسری بڑی شخصیت شہادت کی تمنا کرتی ہوئی نظر آتی ہے.
اسلام میں شہادت کی فضیلت :
???? شہادت اور راہ خداوند متعال قتل ہونے کی اس قدر فضیلت ہے کہ خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا کہ ولا تحسبن الذين قتلوا فى سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون يعني خداوند فرماتا ہے کہ جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں رزق پاتے ہیں۔
(آل عمران 169)
???? اسی طرح حضرت رسول مکرم اسلام (ص) بھی شہادت کے متعلق فرماتے ہوۓ نظر آتے ہیں جو وما ينطق عن الهواء ان هو إلا وحي يوحی کا مصادق اور صادق رسول ہیں آپ(ص) فرماتے ہیں:
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 5 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔