تازه ترین عناوین
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
- اولاد کے حقوق
- نگاهى به تولد و زندگى امام زمان(عج)
- بنجامن نیتن یاہو کا ایران مخالف دورہ امریکا
- عراق؛ صوبہ دیالہ کے علاقے السعدیہ اور جلولاء سے داعش کا صفایا
آمار سایت
- مہمان
- 50
- مضامین
- 456
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 553861
شخصیت و فضائل حضرت حجت ابن الحسن، امام زمان (عج)
اجمالی تعارف:
نام: م۔ح۔م۔د
والد گرامی: حضرت امام حسن عسکری (علیہما السلام)
والدہ: نرجس خاتون (ملیکہ اور صقیل بہی ذکر ہوا ہے)
کنیت: ابو القاسم ، ابا صالح
القاب: مہدی،بقیۃ اللہ ،منتظر،صاحب الامر،صاحب الزّمان قائم ،خلف صالح و۔۔۔۔۔۔
شجرہ نسب: محمّد بن حسن بن علیّ بن محمد بن علیّ بن موسی بن جعفربن محمّد بن علیّ بن حسن بن علیّ بن ابیطالب علیہم السلام۔
تاریخ ولادت: جمعۃ المبارک 15 شعبان المعظم سن 255 ہجری،
محلّ ولادت: سامراء
سال آغاز امامت:260 ہجری(آغاز امامت کے وقت حضرت مہدی (ع)کی عمر پانج برس تھی)
آغاز غیبت صغری:260 ہجری
آغاز غیبت کبری:329 ہجری
مدّت غیبت صغری: تقریبا 70 سال
مدّت غیبت کبری: اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک ہو گی۔
مدّت امامت: اللہ اعلم
عمر مبارک: اللہ اعلم
محل ظہور: وادئ حق کعبہ معلّی
نوّاب اربعہ:
1۔ عثمان بن سعید عمروی (متوفی سن 257 ہجری)
2۔ محمّد بن عثمان عمروی (متوفی سن 304 ہجری)
3۔ حسین بن روح نوبختی (متوفی سن 336 ہجری)
4۔ علیّ بن محمّد سمری (متوفی329 ہجری)
تواتر احادیث حضرت مہدی(ع):
وہ احادیث جن میں حضرت مہدیّ (ع) کا ذکر پایا جاتا ہے ، فریقین کی نظر میں متواتر ہیں ہم یہان فقط چند علماء اہل سنت کے اقوال کو ذکر کرتے ہیں :
1۔ زینی دحلان نے لکھا ہے کہ :
و الاحادیث التی جاء فیھا ذکر ظھور المہدی (ع) کثیرۃ،
زینی دحلان ، الفتوحات الاسلامیّہ ج 2 ص 238،المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر۔
اور وہ احادیث جن میں حضرت مہدی کے ظہور کا ذکر ہوا ہے زیادہ اور متواتر ہیں ۔
2۔ شیخ محمّد بن رسول الحسینی البرزنجی نے اپنی کتاب الاشاعۃ لاشراط السّاعۃ میں یوں لکھا ہے کہ :
قد علمت انّ احادیث وجود المھدی وخروجہ آخر الزّمان و انّہ من عترۃ الرّسول (ص) من ولد فاطمۃ بلغت حدّالتواتر المعنویّ فلامعنی لانکارھا،
بتحقیق آپ جان چکے ہیں کہ احادیث وجود اور خروج مہدی آخری زمانہ میں اور یہ کہ مہدی عترت رسول (ص) اوراولاد فاطمہ میں سے ہیں تواتر معنوی کی حدّ کو پہنچ چکی ہیں بس ایسی احادیث کے انکار کی کوئی معنی اور وجہ نہیں ہے ۔
برزنجی ،محمّد بن حسن ،الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ،ص 112 باب 3
3۔ ابن حجر ہیثمی نے اپنی کتاب " الصواعق المحرقہ " میں لکھا ہے کہ:
والاحادیث التیّ جاء فیھا ذکر ظھور المھدی کثیرۃ متواترۃ،
ہیشمی ،ابن حجر ،الصواعق المحرقہ، ج 2 ص 211
4۔ ابو طالب تجلیل تبریزی علاّمہ محمّد بن حسن آسفوی کی کتاب "مناقب الشافی" سے نقل کرتے ہیں کہ:
و قد تواترت الاخبار عن رسول اللہ (ص) بذکر المھدیّ وانّہ من اھل بیتہ،
اور بتحقیق حضرت رسول خدا (ص) سے منقول روایات حضرت مہدی (ع) کے ذکر کے بارے میں اور اس میں کہ وہ اہل بیت رسول خدا (ص) سے ہیں ، متواتر ہیں۔
تبریزی ،ابوطالب تجلیل، تنزیہ الشیعہ الاثنی عشریۃ عن الشبھات الواھیۃ ،ص 385
5۔ علاّمہ قرطبی اپنی تفسیر "الجامع لاحکام القرآن " میں لکھتے ہیں کہ:
الاخبار الصحاح قد تواترت علی انّ المھدیّ من عترۃ الرّسول (ص)،
اور بتحقیق صحیح روایات اس امر پر متواتر ہیں کہ مہدی نسل رسول خدا (ص) سے ہیں ۔
قرطبی ،محمد بن احمد ،الجامع لاحکام القرآن، ج8 ص121
6 ۔ سید فاخر موسوی نے ابو الحسن آلسحری سے نقل کیا ہے کہ:
وقد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرۃ رواتھاعن المصطفی (ص) بمجیئ المھدی وانہ من اھل البیت۔۔۔۔،
بتحقیق روات کی کثرت کی وجہ سے حضرت محمّد مصطفی (ع) سے منقول روایات خروج اور ظہور حضرت مہدی کے متعلق اور اس بارے میں کہ وہ اہل بیت رسول خدا (ص) سے ہیں مستفیضہ اور متواتر ہیں ۔
موسوی ،فاخر،التجلّی الاعظم ،ص 542، قم ایران۔
7۔ علامہ شیخ محمّد بن احمد سفارینی حنبلی اپنی کتاب " لوائح الانوار البھّیۃ " میں لکھتے ہیں کہ :
کثرت بخروجہ الروایات حتّی بلغت حد التواتر المعنوی فلا معنی لانکارھا،
سفارینی حنبلی ،محمد بن احمد ،لوائح الانوار البہیّہ، ج2 ص80
8۔ علامہ شبلنجی اپنی کتاب " نور الابصار ' ' میں تحریر کرتے ہیں:
تواترت الاخبار عن النبی (ص) انہ من اھل بیتہ وانہ یملا الارض عدلا،
حضرت رسول اکرم (ص) سے صادر ہونے والی روایات اس امر پر متواتر ہیں کہ مہدی آنحضرت (ص)کے اہل بیت میں سے ہیں اور زمین کو عدل سے بھر دیں گے ۔
شبلنجی ،مؤمن نور الابصار ،ص171، الشعبیّہ ، مصر اور، ص 189 ،دار الفکر ،بیروت۔
9۔ علاّمہ ابن صبان اپنی کتاب " اسعاف الرّغبین " میں لکھتے ہیں:
و قد تواترات الاخبار عن النبی (ص) بخروجہ و انّہ من اھل بیتہ وانہ یملا الارض عدلا،
بتحقیق حضور اکرم (ص) سے صادر ہونے والی روایات حضرت مہدی (ع) کے ظہور پر اور اس پہ کہ وہ اہل بیت رسول (ص) میں سے ہیں اور وہ زمین کو عدل سے بھر دیں گے ، متواتر ہیں ۔
ابن صبّان ،محمد بن علیّ ،اسعاف الرّاغبین ،ص140، باب 2
10- حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب " تھذیب التھذیب " میں محمّد بن حسین آبری سے نقل کرتے ہیں کہ:
وقد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرة رواتها عن المصطفی (ص)فی المھدیّ وانہ من اھل بیتہ ۔۔۔،
بتحقیق راویون کی کثرت کی وجہ سے حضرت مصطفی (ص)
سے منقول روایات حضرت مہدی کے متعلق اور اس امر کے بارے میں کہ مہدی (ع) آنحضرت ( ص ) کے اہل بیت سے ہیں ، مستفیضہ و متواترہ ہیں ۔
عسقلانی، ابن حجر ،تھذیب التھذیب ،9ج ص126، دارالفکر بیروت، لبنان
11 ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی " فتح الباری " میں لکھتے ہیں کہ :
و فی صلاۃ عیسی ( ع ) خلف رجل من ھذہ الامّۃ مع کونہ فی آخر الزمان و قرب قیام الساعۃ دلالۃ للصحیح من الاقوال : انّ الارض لا تخلوا من قائم اللہ بحجّۃ،
حضرت عیسی ( ع) کی اس امّت میں ایک شخص کے پیچھے نماز پڑہنے میں حالانکہ یہ امر آخری زمانے میں قیامت برپا ہونے کے قریب ہو گا ، صحیح قول کی دلیل ہے کہ : زمیں حجت خدا سے خالی نہیں رہتی۔
عسقلانی، ابن حجر ،فتح الباری ج6 ص385، دار المعرفہ بیروت، لبنان۔
مجھے نہیں معلوم کہ ابن حجر کی نظر میں عیسی ( ع ) کا امام اور مقتدی کون ہے ؟ اور کیوں اس شخصیت کو واضح بیان نہیں کیا جاتا ؟
البتہ بغض بیان حقیقت سے مانع ہوتا ہے ۔
امام زمانہ سے متعلق اہم سوالات اور جواب
امام عصر سے متعلق جوانوں کے لئے سوالات اور ان کے جواب:
س1 : اس وقت روئے زمین پر حجت خدا کون ہے ؟
ج2: بارہویں امام مہدی (عج)
س2: امام عصر کب اور کہاں پیدا ہوئے ؟
ج2: 15 شعبان المعظم 255 ہجری قمری میں سامرہ میں پیدا ہوئے ۔
س3: آپ کے والدماجد اور والدہ گرامی کا نام کیا ہے ؟
ج3: والد امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ نرجس خاتون ۖہیں ۔
س4: امام عصر کا نام کیا ہے اور کس نے رکھا ہے ؟
ج4: آپ کااصل نام (م ح م د (ہے او ر یہ نام رسول خدا ۖنے رکھا ہے ۔
س5: آپ کی کنیت کیا ہے ؟
ج5: ابو القاسم ،ابوصالح ،ابو عبداللہ،ابو ابراہیم اور ابوجعفر۔
س6: آپ کو امامت کے فرائض کب سونپے گئے ؟
ج6: ٨ربیع الاول ٢٦٠ ھ ق کو ۔
س7: اس وقت آپ کی عمر مبارک کیا ہے؟
ج7: اس وقت آپ کی عمر مبارک ١١٧٠سال ہے ۔
س 8: امام حسن عسکری ـ کی شہادت کے وقت بادشاہ وقت کون تھا ؟
ج8: معتمد عباسی حکمران وقت تھا ۔
س9:غیبت کی کتنی قسمیں ہیں ؟
ج9:غیبت کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
(غیبت صغری ...غیبت کبری ) تاریخ کے بیان کے مطابق غیبت صغری کی مدت 260 سے 239 تک اور غیبت کبری کی مدت 329 سے نامعلوم مدت تک ۔
س10 : امام زمانہ سے متعلق آئمہ معصومین کی کوئی حدیث پیش کریں ؟
ج10 : امام (عج)سے متعلق معصومین سے سینکڑوں کی تعداد میں مختلف مضامین کی حدیثیں شیعہ اوراہل سنت حضرات نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں لیکن آپ مثال کے طور پر اس حدیث کوملاحظہ فرمائیں جسے علامہ جوادی نے اپنے ترجمہ میں نقل کیا ہے کہ: امام محمد باقر (ع) کا ارشاد گرامی ہے کہ خلوص دل کے ساتھ ظہور قائم کا انتظار کرنے والا شہداء اور صدیقین میں شمار ہوتا ہے ،اس لئے کہ ایمان بالغیب سے بڑا کوئی ایمان نہیں ہے اور یہ انسان کو مجاہد کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے-
حضرت علی اکبرؑ کی ولادت با سعادت مبارک ہو
گیارہ شعبان سنہ 33 ھ ق کو حضرت امام حسین ؑ کے فرزند حضرت علی اکبر ؑ کی مدینے میں ولادت باسعادت ہوئی، حضرت علی اکبر ؑ رسول اکرم ﷺ سے بہت شباہت رکھتے تھے ۔آپ ؑ نے سنہ 61 ھ ق میں اموی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف اپنے والد بزرگوار ؑ کی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ گیارہ شعبان سنہ 33 ھ ق کو حضرت امام حسین ؑ کے فرزند حضرت علی اکبر ؑ کی مدینے میں ولادت باسعادت ہوئی ۔ حضرت علی اکبر ؑ رسول اکرم ﷺ سے بہت شباہت رکھتے تھے ۔آپ ؑ نے سنہ 61 ھ ق میں اموی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسین ؑ کی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ عاشور کے دن کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ کے مقابلے پر آنے والی یزیدی فوج سے دلیری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام
حضرت علی اکبر ؑ بن ابی عبداللہ الحسین ؑ 11 شعبان سن43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔
آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب ؑ کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں ۔(2(
اس طرح علی اکبر ؑ عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوے تھے ۔
والد کیطرف سے طایفہ بنی ھاشم سے کہ جس میں پیعبر اسلام ﷺ حضرت فاطمہ (س) ، امیر المومنین علی بن ابیطالب ؑ اور امام حسن ؑ کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ہمسر رسول خدا ﷺ کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے ـ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین ؑ ہے کہ اسکا نانا رسول خدا ﷺ ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے (3)
حضرت علی اکبر ؑ کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم ﷺ سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام ﷺ کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود پیغمبر اسلام ﷺ ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المومنین علی ﷺ سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے ـ (4)
ابوالفرج اصفھانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر ﷺ عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوے ہیں (5) اس قول کے مطابق شھادت کے وقت آنحضرت 25 سال کے تھے ۔
حضرت علی اکبر ؑ نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب ؑ کے مکتب اور اپنے والد امام حسین ؑ کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کرکے رشد و کمال حاصل کرلیا ۔
امام حسین ؑ نے ان کی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے مجہز کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خودکو روک نہ پات تھا ۔
ماہ شعبان کی فضیلت اور اس کے اعمال
شعبان وہ عظیم مہینہ ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے ۔ حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاند نموردارہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدربزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں اپنے والدگرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔
شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزے رکھنے پر آمادہ کرو! میں نے عرض کیا، اس کی فضیلت کیا ہے؟ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :
” اے اہل مدینہ ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی روزہ رکھے۔“
صفوان کہتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی ہے، اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہ ہوگا۔ نیز فرمایا کہ شعبان ورمضان دومہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔
اسماعیل بن عبدالخالق سے روایت ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا جب کہ روزہ شعبان کا ذکر ہوا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا: ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔
ماہ شعبان کی فضیلت اور اس کے اعمال
معلوم ہونا چاہئے کہ شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول ﷺسے منسوب ہے حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔امام جعفر صادق (ع)فرماتے ہیں کہ جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین(ع) تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول الله ﷺفرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین(ع) کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی (ع)سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین (ع)سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاوٴں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟آپ(ع) نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول الله ﷺجب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :اے اہل مدینہ! میں رسول خدا ﷺکا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔ صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق (ع)کا ارشاد ہے کہ امیر المؤمنین(ع) فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی اسکے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق (ع)کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزہٴ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے حتی کہ نا حق خون بہانے والے کو بھی ان روزوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور بخشا جا سکتا ہے۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 7 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔