تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1787
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 708478
روز قدس عالمی
قدس ، پہلا قبلہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے یہ فلسطین کے ان دسیوں لاکھ مسلمانوں کی اصل سرزمین ہے جنہیں عالمی استکبار نے غاصب صیہونیوں کے ہاتھوں سنہ 1948 میں اپنے وطن سے جلاوطن کرکے قدس کی غاصب ، صیہونیوں کے تصرف میں دےدیا تھا ۔اس سامراجی سازش کے خلاف فلسطینی مسلمانوں نے شروع سے ہی مخالفت کی اور ان مظلوموں کی قربانی اور صبر و استقامت کے سلسلے میں پوری دنیا کے حریت نواز ، بیدار دل انسانوں نے حمایت کی اور اسی وقت سے فلسطین کا مسئلہ ایک سیاسی ۔ فوجی جد وجہد کے عنوان سے عالم اسلام کے سب سے اہم اور تقدیرساز مسئلے کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے ۔اسلامی ایران کی ملت و حکومت نے بھی ، اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کے بعد سے غاصب صیہونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے مسئلے کو اپنا اولین نصب العین قراردے رکھا ہے اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو روز قدس قراردے کر اس دن کو ستمگران تاریخ کے خلاف حریت و آزادی کے بلند بانگ نعروں میں تبدیل کردیا ہے ۔اسلامی انقلاب کے فورا" بعد حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے صیہونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے لئے اس دن کو روز قدس اعلان کرتے ہوئے اپنے تاریخی پیغام میں فرمایا تھا : میں نے سالہائے دراز سے ، مسلسل غاصب اسرائیل کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ و خبردار کیا ہے اور اب چونکہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف ان کے وحشیانہ حملوں میں شدت آگئی ہے خاص طور پر جنوبی لبنان میں وہ فلسطینی مجاہدین کو نابود کردینے کے لئے ان کے گھروں اور کاشانوں پر پیاپے بمباری کررہے ہیں میں پورے عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ ان غاصبوں اور ان کے پشتپناہوں کے ہاتھ قطع کردینے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو جو قدر کے ایام ہیں فلسطینیوں کے مقدرات طے کرنے کے لئے ، روز قدس کے عنوان سے منتخب کرتا ہوں تا کہ بین الاقوامی سطح پر تمام مسلمان عوام فلسطینی مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت و پشتپناہی کا اعلان کریں ۔میں پورے عالم کفر پر مسلمانوں کی کامیابی کے لئے خداوند متعال کی بارگاہ میں دعاگو ہوں ۔اور اس اعلان کے بعد سے ہی روز قدس ، قدس کی آزادی کے عالمی دن کی صورت اختیار کرچکا ہے اور صرف قدس سے مخصوص نہیں رہ گیا ہے بلکہ عصر حاضر میں مستکبرین کے خلاف مستضعفین کی مقابلہ آرائی اور امریکہ اور اسرائیل کی تباہی و نابودی کا دن بن چکا ہے ۔روز قدس دنیا کی مظلوم و محروم تمام قوموں اور ملتوں کی تقدیروں کے تعین کا دن ہے کہ وہ اٹھیں اور عالمی استکبار کے خلاف اپنے انسانی وجود کوثابت کریں اور جس طرح ایران کے عوام نے انقلاب برپا کرکے وقت کے سب سے قوی و مقتدر شہنشاہ اور اس کے سامراجی پشتپناہوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا اسی طرح دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں کے عوام بھی اپنے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے انقلاب برپا کریں اور صیہونی ناسور کو دنیائے اسلام کے قوی و مقتدر پیکر سے کاٹ کر کوڑے دان میں پھینک دیں ۔روز قدس جرات و ہمت اور جواں مردی و دلیری کے اظہار کا دن ہے مسلمان ملتیں ہمت و جرات سے کام لیں اور مظلوم و محروم قدس کو سامراجی پنجوں سے نجات عطا کریں ۔روز قدس ان خیانتکاروں کو بھی خبردار کرنے کا دن ہے جو امریکہ کے آلۂ کار کی حیثیت سے غاصب قاتلوں اور خونخوار بھیڑیوں کے ساتھ ساز باز میں مبتلا ہیں اور ایک قوم کے حقوق کا خود ان کے قاتلوں سے سودا کررہے ہیں ۔روز قدس صرف روز فلسطین نہیں ہے پورے عالم اسلام کا دن ہے ، اسلام کا دن ہے قرآن کا دن ہے اور اسلامی حکومت اور اسلامی انقلاب کا دن ہے ۔اسلامی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا دن ہے ۔اگر اپنی اسلامی یکجہتی کی بنیاد پر لبنان کے حزب اللہی صیہونی طاقتوں کے خلاف 33 روزہ جنگ میں سرخرو اور کامیاب ہوسکتے ہیں تو فلسطینی مجاہدین بھی اگر خیانتکاروں کو اپنی صفوں سے نکال کر اتحاد و یکجہتی سے کام لیں اور پوری قوت کے ساتھ غاصب صیہونیوں کے خلاف میدان میں نکل آئیں تو یقینا" کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومے گي کیونکہ خدا نے وعدہ کیا ہے " اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثبات قدم عطا کردے گا ۔" اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کے لئے اسلام و قرآن اور کعبہ ؤ قدس کے تحفظ کے لئے ، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اور ایک ہوجائیں اور کفار و منافقین کو اسلامی مقدسات کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صیہونیوں کا تصرف ، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے ۔ دشمن مذہب و مسلک اور قومی و لسانی تفرقے ایجاد کرکے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کررہا ہے اب بھی وقت ہے کہ مسلمان ملتیں ہوش میں آئیں اور اسلامی بیداری و آگاہی سے کام لے کر ، فلسطینی مجاہدین کے ساتھ اپنی حمایت و پشتپناہی کا اعلان کریں ۔فلسطین کے محروم و مظلوم نہتے عوام ، صیہونیوں کے پنجۂ ظلم میں گرفتار لاکھوں مرد وعورت ، وطن سے بے وطن لاکھوں فلسطینی رفیوجی ،غیرت و حمیت سے سرشار لاکھوں جوان و نوجوان ہاتھوں میں غلیل اور سنگریزے لئے فریاد کررہے ہیں ،چیخ رہے ہیں ،آواز استغاثہ بلند کررہے ہیں کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کی برقراری کا انتظار کرنے والو ، فلسطینی مظلوموں کی مدد کرو قدس کی بازیابی کے لئے ایک ہوجاؤ ۔ہم فلسطینی ہیں فلسطینی ہی رہیں گے ۔ہم بیت المقدس کو غاصب صیہونیوں سے نجات دلائیں گے، ہم خون میں نہا کر مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حفاظت کریں گے ۔بس ہمیں مسلمانوں کی حمایت و پشتپناہی کی ضرورت ہے ۔
شہادت حضرت علی (ع) کی نگاہ میں:
[۱۶:۲۳, ۱۳۹۹/۲/۲۶] شہادت حضرت علی (ع) کی نگاہ میں:
✒️ : ارشد حسین
???? شہادت کا درجہ ایک ایسا عظیم مرتبہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا بلکہ یہ ان لوگوں کے حصے میں آجاتا ہے جو خدا وند متعال کے انتخاب شدہ ہوتے ہیں . پس جو شخص بھی راہ خدا میں اپنی جان کا نظرانہ پیش کرتا ہے وہ خدا کا محبوب ترین بندوں میں سے شمار ہوتا ہے لیکن ہم اس مقالے میں شہادت کو مولا علی علیہ السلام کی نگاہ سے بیان کرنے کی کوشش کرینگے کہ آپ (ع) حضرت رسول اللہ (ص) کے بعد اس کائنات کی افضل ترین شخصیت ہونے کے بعد بھی راہ خدا میں قتل ہوجانا اور راہ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنااپنے لۓ سعادت اور فخر سمجھتے تھے جس سے شہادت کی فضیلت و مقام واضح اور روشن ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کی دوسری بڑی شخصیت شہادت کی تمنا کرتی ہوئی نظر آتی ہے.
اسلام میں شہادت کی فضیلت :
???? شہادت اور راہ خداوند متعال قتل ہونے کی اس قدر فضیلت ہے کہ خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا کہ ولا تحسبن الذين قتلوا فى سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون يعني خداوند فرماتا ہے کہ جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں رزق پاتے ہیں۔
(آل عمران 169)
???? اسی طرح حضرت رسول مکرم اسلام (ص) بھی شہادت کے متعلق فرماتے ہوۓ نظر آتے ہیں جو وما ينطق عن الهواء ان هو إلا وحي يوحی کا مصادق اور صادق رسول ہیں آپ(ص) فرماتے ہیں:
شخصیت و فضائل حضرت حجت ابن الحسن، امام زمان (عج)
اجمالی تعارف:
نام: م۔ح۔م۔د
والد گرامی: حضرت امام حسن عسکری (علیہما السلام)
والدہ: نرجس خاتون (ملیکہ اور صقیل بہی ذکر ہوا ہے)
کنیت: ابو القاسم ، ابا صالح
القاب: مہدی،بقیۃ اللہ ،منتظر،صاحب الامر،صاحب الزّمان قائم ،خلف صالح و۔۔۔۔۔۔
شجرہ نسب: محمّد بن حسن بن علیّ بن محمد بن علیّ بن موسی بن جعفربن محمّد بن علیّ بن حسن بن علیّ بن ابیطالب علیہم السلام۔
تاریخ ولادت: جمعۃ المبارک 15 شعبان المعظم سن 255 ہجری،
محلّ ولادت: سامراء
سال آغاز امامت:260 ہجری(آغاز امامت کے وقت حضرت مہدی (ع)کی عمر پانج برس تھی)
آغاز غیبت صغری:260 ہجری
آغاز غیبت کبری:329 ہجری
مدّت غیبت صغری: تقریبا 70 سال
مدّت غیبت کبری: اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک ہو گی۔
مدّت امامت: اللہ اعلم
عمر مبارک: اللہ اعلم
محل ظہور: وادئ حق کعبہ معلّی
نوّاب اربعہ:
1۔ عثمان بن سعید عمروی (متوفی سن 257 ہجری)
2۔ محمّد بن عثمان عمروی (متوفی سن 304 ہجری)
3۔ حسین بن روح نوبختی (متوفی سن 336 ہجری)
4۔ علیّ بن محمّد سمری (متوفی329 ہجری)
تواتر احادیث حضرت مہدی(ع):
وہ احادیث جن میں حضرت مہدیّ (ع) کا ذکر پایا جاتا ہے ، فریقین کی نظر میں متواتر ہیں ہم یہان فقط چند علماء اہل سنت کے اقوال کو ذکر کرتے ہیں :
1۔ زینی دحلان نے لکھا ہے کہ :
و الاحادیث التی جاء فیھا ذکر ظھور المہدی (ع) کثیرۃ،
زینی دحلان ، الفتوحات الاسلامیّہ ج 2 ص 238،المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر۔
اور وہ احادیث جن میں حضرت مہدی کے ظہور کا ذکر ہوا ہے زیادہ اور متواتر ہیں ۔
2۔ شیخ محمّد بن رسول الحسینی البرزنجی نے اپنی کتاب الاشاعۃ لاشراط السّاعۃ میں یوں لکھا ہے کہ :
قد علمت انّ احادیث وجود المھدی وخروجہ آخر الزّمان و انّہ من عترۃ الرّسول (ص) من ولد فاطمۃ بلغت حدّالتواتر المعنویّ فلامعنی لانکارھا،
بتحقیق آپ جان چکے ہیں کہ احادیث وجود اور خروج مہدی آخری زمانہ میں اور یہ کہ مہدی عترت رسول (ص) اوراولاد فاطمہ میں سے ہیں تواتر معنوی کی حدّ کو پہنچ چکی ہیں بس ایسی احادیث کے انکار کی کوئی معنی اور وجہ نہیں ہے ۔
برزنجی ،محمّد بن حسن ،الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ،ص 112 باب 3
3۔ ابن حجر ہیثمی نے اپنی کتاب " الصواعق المحرقہ " میں لکھا ہے کہ:
والاحادیث التیّ جاء فیھا ذکر ظھور المھدی کثیرۃ متواترۃ،
ہیشمی ،ابن حجر ،الصواعق المحرقہ، ج 2 ص 211
4۔ ابو طالب تجلیل تبریزی علاّمہ محمّد بن حسن آسفوی کی کتاب "مناقب الشافی" سے نقل کرتے ہیں کہ:
و قد تواترت الاخبار عن رسول اللہ (ص) بذکر المھدیّ وانّہ من اھل بیتہ،
اور بتحقیق حضرت رسول خدا (ص) سے منقول روایات حضرت مہدی (ع) کے ذکر کے بارے میں اور اس میں کہ وہ اہل بیت رسول خدا (ص) سے ہیں ، متواتر ہیں۔
تبریزی ،ابوطالب تجلیل، تنزیہ الشیعہ الاثنی عشریۃ عن الشبھات الواھیۃ ،ص 385
5۔ علاّمہ قرطبی اپنی تفسیر "الجامع لاحکام القرآن " میں لکھتے ہیں کہ:
الاخبار الصحاح قد تواترت علی انّ المھدیّ من عترۃ الرّسول (ص)،
اور بتحقیق صحیح روایات اس امر پر متواتر ہیں کہ مہدی نسل رسول خدا (ص) سے ہیں ۔
قرطبی ،محمد بن احمد ،الجامع لاحکام القرآن، ج8 ص121
6 ۔ سید فاخر موسوی نے ابو الحسن آلسحری سے نقل کیا ہے کہ:
وقد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرۃ رواتھاعن المصطفی (ص) بمجیئ المھدی وانہ من اھل البیت۔۔۔۔،
بتحقیق روات کی کثرت کی وجہ سے حضرت محمّد مصطفی (ع) سے منقول روایات خروج اور ظہور حضرت مہدی کے متعلق اور اس بارے میں کہ وہ اہل بیت رسول خدا (ص) سے ہیں مستفیضہ اور متواتر ہیں ۔
موسوی ،فاخر،التجلّی الاعظم ،ص 542، قم ایران۔
7۔ علامہ شیخ محمّد بن احمد سفارینی حنبلی اپنی کتاب " لوائح الانوار البھّیۃ " میں لکھتے ہیں کہ :
کثرت بخروجہ الروایات حتّی بلغت حد التواتر المعنوی فلا معنی لانکارھا،
سفارینی حنبلی ،محمد بن احمد ،لوائح الانوار البہیّہ، ج2 ص80
8۔ علامہ شبلنجی اپنی کتاب " نور الابصار ' ' میں تحریر کرتے ہیں:
تواترت الاخبار عن النبی (ص) انہ من اھل بیتہ وانہ یملا الارض عدلا،
حضرت رسول اکرم (ص) سے صادر ہونے والی روایات اس امر پر متواتر ہیں کہ مہدی آنحضرت (ص)کے اہل بیت میں سے ہیں اور زمین کو عدل سے بھر دیں گے ۔
شبلنجی ،مؤمن نور الابصار ،ص171، الشعبیّہ ، مصر اور، ص 189 ،دار الفکر ،بیروت۔
9۔ علاّمہ ابن صبان اپنی کتاب " اسعاف الرّغبین " میں لکھتے ہیں:
و قد تواترات الاخبار عن النبی (ص) بخروجہ و انّہ من اھل بیتہ وانہ یملا الارض عدلا،
بتحقیق حضور اکرم (ص) سے صادر ہونے والی روایات حضرت مہدی (ع) کے ظہور پر اور اس پہ کہ وہ اہل بیت رسول (ص) میں سے ہیں اور وہ زمین کو عدل سے بھر دیں گے ، متواتر ہیں ۔
ابن صبّان ،محمد بن علیّ ،اسعاف الرّاغبین ،ص140، باب 2
10- حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب " تھذیب التھذیب " میں محمّد بن حسین آبری سے نقل کرتے ہیں کہ:
وقد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرة رواتها عن المصطفی (ص)فی المھدیّ وانہ من اھل بیتہ ۔۔۔،
بتحقیق راویون کی کثرت کی وجہ سے حضرت مصطفی (ص)
سے منقول روایات حضرت مہدی کے متعلق اور اس امر کے بارے میں کہ مہدی (ع) آنحضرت ( ص ) کے اہل بیت سے ہیں ، مستفیضہ و متواترہ ہیں ۔
عسقلانی، ابن حجر ،تھذیب التھذیب ،9ج ص126، دارالفکر بیروت، لبنان
11 ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی " فتح الباری " میں لکھتے ہیں کہ :
و فی صلاۃ عیسی ( ع ) خلف رجل من ھذہ الامّۃ مع کونہ فی آخر الزمان و قرب قیام الساعۃ دلالۃ للصحیح من الاقوال : انّ الارض لا تخلوا من قائم اللہ بحجّۃ،
حضرت عیسی ( ع) کی اس امّت میں ایک شخص کے پیچھے نماز پڑہنے میں حالانکہ یہ امر آخری زمانے میں قیامت برپا ہونے کے قریب ہو گا ، صحیح قول کی دلیل ہے کہ : زمیں حجت خدا سے خالی نہیں رہتی۔
عسقلانی، ابن حجر ،فتح الباری ج6 ص385، دار المعرفہ بیروت، لبنان۔
مجھے نہیں معلوم کہ ابن حجر کی نظر میں عیسی ( ع ) کا امام اور مقتدی کون ہے ؟ اور کیوں اس شخصیت کو واضح بیان نہیں کیا جاتا ؟
البتہ بغض بیان حقیقت سے مانع ہوتا ہے ۔
امام زمانہ سے متعلق اہم سوالات اور جواب
امام عصر سے متعلق جوانوں کے لئے سوالات اور ان کے جواب:
س1 : اس وقت روئے زمین پر حجت خدا کون ہے ؟
ج2: بارہویں امام مہدی (عج)
س2: امام عصر کب اور کہاں پیدا ہوئے ؟
ج2: 15 شعبان المعظم 255 ہجری قمری میں سامرہ میں پیدا ہوئے ۔
س3: آپ کے والدماجد اور والدہ گرامی کا نام کیا ہے ؟
ج3: والد امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ نرجس خاتون ۖہیں ۔
س4: امام عصر کا نام کیا ہے اور کس نے رکھا ہے ؟
ج4: آپ کااصل نام (م ح م د (ہے او ر یہ نام رسول خدا ۖنے رکھا ہے ۔
س5: آپ کی کنیت کیا ہے ؟
ج5: ابو القاسم ،ابوصالح ،ابو عبداللہ،ابو ابراہیم اور ابوجعفر۔
س6: آپ کو امامت کے فرائض کب سونپے گئے ؟
ج6: ٨ربیع الاول ٢٦٠ ھ ق کو ۔
س7: اس وقت آپ کی عمر مبارک کیا ہے؟
ج7: اس وقت آپ کی عمر مبارک ١١٧٠سال ہے ۔
س 8: امام حسن عسکری ـ کی شہادت کے وقت بادشاہ وقت کون تھا ؟
ج8: معتمد عباسی حکمران وقت تھا ۔
س9:غیبت کی کتنی قسمیں ہیں ؟
ج9:غیبت کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
(غیبت صغری ...غیبت کبری ) تاریخ کے بیان کے مطابق غیبت صغری کی مدت 260 سے 239 تک اور غیبت کبری کی مدت 329 سے نامعلوم مدت تک ۔
س10 : امام زمانہ سے متعلق آئمہ معصومین کی کوئی حدیث پیش کریں ؟
ج10 : امام (عج)سے متعلق معصومین سے سینکڑوں کی تعداد میں مختلف مضامین کی حدیثیں شیعہ اوراہل سنت حضرات نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں لیکن آپ مثال کے طور پر اس حدیث کوملاحظہ فرمائیں جسے علامہ جوادی نے اپنے ترجمہ میں نقل کیا ہے کہ: امام محمد باقر (ع) کا ارشاد گرامی ہے کہ خلوص دل کے ساتھ ظہور قائم کا انتظار کرنے والا شہداء اور صدیقین میں شمار ہوتا ہے ،اس لئے کہ ایمان بالغیب سے بڑا کوئی ایمان نہیں ہے اور یہ انسان کو مجاہد کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے-
حضرت علی اکبرؑ کی ولادت با سعادت مبارک ہو
گیارہ شعبان سنہ 33 ھ ق کو حضرت امام حسین ؑ کے فرزند حضرت علی اکبر ؑ کی مدینے میں ولادت باسعادت ہوئی، حضرت علی اکبر ؑ رسول اکرم ﷺ سے بہت شباہت رکھتے تھے ۔آپ ؑ نے سنہ 61 ھ ق میں اموی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف اپنے والد بزرگوار ؑ کی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ گیارہ شعبان سنہ 33 ھ ق کو حضرت امام حسین ؑ کے فرزند حضرت علی اکبر ؑ کی مدینے میں ولادت باسعادت ہوئی ۔ حضرت علی اکبر ؑ رسول اکرم ﷺ سے بہت شباہت رکھتے تھے ۔آپ ؑ نے سنہ 61 ھ ق میں اموی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسین ؑ کی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ عاشور کے دن کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ کے مقابلے پر آنے والی یزیدی فوج سے دلیری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام
حضرت علی اکبر ؑ بن ابی عبداللہ الحسین ؑ 11 شعبان سن43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔
آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب ؑ کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں ۔(2(
اس طرح علی اکبر ؑ عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوے تھے ۔
والد کیطرف سے طایفہ بنی ھاشم سے کہ جس میں پیعبر اسلام ﷺ حضرت فاطمہ (س) ، امیر المومنین علی بن ابیطالب ؑ اور امام حسن ؑ کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ہمسر رسول خدا ﷺ کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے ـ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین ؑ ہے کہ اسکا نانا رسول خدا ﷺ ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے (3)
حضرت علی اکبر ؑ کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم ﷺ سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام ﷺ کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود پیغمبر اسلام ﷺ ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المومنین علی ﷺ سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے ـ (4)
ابوالفرج اصفھانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر ﷺ عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوے ہیں (5) اس قول کے مطابق شھادت کے وقت آنحضرت 25 سال کے تھے ۔
حضرت علی اکبر ؑ نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب ؑ کے مکتب اور اپنے والد امام حسین ؑ کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کرکے رشد و کمال حاصل کرلیا ۔
امام حسین ؑ نے ان کی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے مجہز کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خودکو روک نہ پات تھا ۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 16 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔