تازه ترین عناوین
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
- اولاد کے حقوق
- نگاهى به تولد و زندگى امام زمان(عج)
- بنجامن نیتن یاہو کا ایران مخالف دورہ امریکا
- عراق؛ صوبہ دیالہ کے علاقے السعدیہ اور جلولاء سے داعش کا صفایا
آمار سایت
- مہمان
- 50
- مضامین
- 456
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 553856
امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کا ثواب
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کے ثواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مندرجہ ذیل روایت کتاب کامل الزیارات سے نقل کی گئی ہے۔
اس روایت کا متن اس طرح ہے:
قال الامام الصادق علیہ السلام :
وَ مَنْ ذُکِرَ اَلْحُسَیْنُ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَیْنِهِ [عَیْنَیْهِ] مِنَ اَلدُّمُوعِ مِقْدَارُ جَنَاحِ ذُبَابٍ کَانَ ثَوَابُهُ عَلَی اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَمْ یَرْضَ لَهُ بِدُونِ اَلْجَنَّةِ.
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اگر کسی شخص کے ہاں امام حسین علیہ السلام کا ذکر ہو اور(ذکر حسین کی وجہ سے) مکھی کے پر کے برابر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائے تو اس کا اجر و ثواب خدا پر ہے اور (بیشک)حق تعالی بہشت سے کمتر اس کے لیے راضی نہیں ہوگا۔
حضرت مسلم ع کی شخصیت پر ایک نظر
محسن اسلام حضرت ابو طالب علیہ السلام کے چار فرزند تھے۔ حضرت جعفر ؑ،حضرت عقیل ؑ، حضرت علی ؑاور حضرت طالب ؑ۔ حضرت مسلم علیہ السلام حضرت عقیل ؑ کے بیٹے تھے۔ جو حضرت علی ؑ اور جناب ام البنین ؐ کے داماد تھے۔ یعنی علمدار حسینی حضرت عباس ؑ کی ہمشیرہ جناب مسلم ابن عقیل سے منسوب تھیں۔ آپ انتہائی شجاع و بہادر ہو نے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی خصوصیات کے مطابق انتہائی متقی و پرہیز گار ، دیندار اور امام حسین ؑ سے محبت کر نے والے ، شیدا اور وفادار تھے۔ امام حسین ؑ کو جناب مسلم ابن عقیل ؑ پر مکمل اعتماد و اعتبار تھا اور اسی اعتماد کی بنا پر امام حسین ؑ نے جناب مسلم ؑ کو اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا۔ جہاں تک مسلم ؑ کی شجاعت و بہادری کا سوال ہے امام حسین ؑ کے پاس تین طاقتیں ایسی تھیں کہ اگر کربلا میں یہ تینوں قوتیں یکجا ہو گئی ہو تیں تو شائد جنگِ کر بلا کا انداز ہی دوسرا ہو تا۔ ان میں ایک شخصیت جناب محمد حنفیہ کی تھی دوسری جناب مسلم ابن عقیل ؑ کی اور تیسری جناب عباسِ علمدار کی مگر چوں کہ امام حسین ؑ کا مقصد جنگ نہیں بلکہ دین اسلام کی بقاء کے لئے قربانیاں پیش کر نا تھا لہٰذا امام عالی مقام نے ان تینوں طاقتوں کو تقسیم کر دیا۔ جناب محمد حنفیہ کو مدینہ منورہ میں ہی چھوڑ دیا اور جناب مسلم ابن عقیل ؑ کو اپنا سفیر و نائب بنا کر کو فہ بھیج دیا۔ صرف جناب عباس ؑ ابن علی ؑ کو اپنے ساتھ کربلا لے گئے۔
امام حسین ؑ کو جناب مسلم ابن عقیل پر مکمل اعتماد تھا جیسا کہ امام حسین ؑ کے ان خطوط سے بھی ظاہر ہے جو انھوں نے معززین کو فہ کے ان خطوط کے جوابات میں لکھے تھے جو اہلِ کوفہ نے انھیں کو فہ تشریف لا نے کے لئے تحریر کئے تھے۔ اہل کوفہ نے لکھا تھا کہ ’’ہم بلا امام ہیں آپ تشریف لے آئیں۔ ہم آپ کے منتظر ہیں۔ اگر آپ تشریف نہ لا ئے تو یوم حشر آپ ہمارے اعمال کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہم نے اتمام حجت کر دیا ہے۔‘‘
امام حسین ؑ نے مومنین کو فہ کو خط لکھا کہ ’’چونکہ تم نے اتمام حجت کی بات کی ہے لہٰذا منجانب اللہ مجھ پر فرض ہے کہ میں تمہاری دعوت کو قبول کروں۔ مقد مہ کے طور پر میں اپنے برادرِ عم (چچا زاد بھائی) اور اپنے معتمد خاص مسلم ؑ ابن عقیل ؑ کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ اگر مسلم ؑ نے مجھے لکھا کہ جو کچھ تم نے لکھا تھا تم اس پر قائم ہو تو میں بہت جلد تمہارے پاس آجا ئوں گا۔ ‘‘ امام حسین ؑ کے اس خط سے جناب مسلم ؑکا معتمد خاص ہو نا مسلم الثبوت ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مکتب کی تعلیمات کا پس منظر حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) کی نظر میں
مشہور روایات کی بنیاد پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت سات ذی الحجة ١١٤ ہجری میں واقع ہوئی ہے (١) لہذا آج ان کی شہادت کے موقع پر ضروری ہے کہ ہم ان کی معرفت حاصل کرتے ہوئے ان کی تعلیمات میں کا مطالعہ کریں اور حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے اہم نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے امام علیہ السلام کے کلام کی تفسیر مخاطبین کے سامنے پیش کریں ۔
لقب باقر العلوم (علیہ السلام) کے مفہوم میں غور وفکر
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام محمد باقر علیہ السلام کے متعلق باقر العلوم کے لقب سے ملقب ہونے کے سلسلہ میں فرمایا : یقینا انہوں نے لقب باقرالعلوم کو اپنے آپ سے مخصوص کیا ہے کیونکہ آپ نے مختلف علوم کو واضح کیا ہے اور تمام علوم جیسے تفسیر، عقاید، فقہ اور اخلاق میں اسلامی نظریات کو بیان کیا ہے اور آپ نے اس سلسلہ میں اس قدر احادیث بیان کی ہیں کہ فقط محمد بن مسلم نے تیس ہزار حدیث ، امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہیں (٢) ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی عظیم میراث، اسلامی علوم کی وضاحت
شیعوں کے عظیم الشان مرجع تقلید نے ائمہ علیہم السلام خصوصا امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل شدہ احادیث کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : افسوس کہ بہت سی احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کا ذخیرہ تھیں ، ہم تک نہیں پہنچی ہیں ، اگرچہ ان احادیث کو جمع کرنے میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی تھی (٣) ، لیکن شیعوں کی اکثر احادیث جن کی تعداددسیوں ہزار سے زیادہ ہے ، فقط پانچویں اور چھٹے امام یعنی محمد بن علی الباقر اور جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک حصہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں راہنما ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے تھے جب دشمنوں کا فشار بہت کم تھا اور بنی امیہ و بنی عباس آپس میں جنگ کر رہے تھے ، جس کی وجہ سے ان تینوں اماموں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث کو اپنے آبائو اجداد سے نقل کرکے ہم تک منتقل کی ہیں (٤) ۔
معظم لہ نے امام باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظیم تعلیمات کے متعلق اس طرح فرمایا : اس وقت فقہی، اصولی،تفسیری، عقایدی ، اخلاقی جس کتاب کا بھی مطالعہ کریں اس میں قال الباقر (علیہ السلام) اور قال الصادق (علیہ السلام) ملتا ہے اور ان دو راہنمائوں نے ہمیں اسلامی علوم کی عظیم میراث عطا کی ہے ۔
امام محمد باقرؑ کی مختصر سیرتِ طیّبہ
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادتِ با سعادت پہلی رجب المرجب سنّ ۵۷ ھ کو یوم جمعہ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؑ کا اسم گرامی محمد رکھا گیا، ابو جعفر آپؑ کی کنیت اور آپؑ کے القاب بہت سے تھے جن میں باقرالعلوم سب سے زیادہ مشہور لقب ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو اس لقب سے اس لئے ملقّب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم و معارف اورحقائق احکام و حکمت و لطائف کے ایسے خزانے ظاہر فرما دئیے جو لوگوں پر ظاہر و عیاں نہ تھے، آپؑ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؑ والدہ ماجدہ اور والد گرامی دونوں کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ، حضرت علیؑ اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی جانب منسوب ہیں اس لئے کہ آپؑ کے والد محترم حضرت امام زین العابدین، جناب امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں اور والدہ ماجدہ کی جانب سے آپؑ امام حسنؑ کی جانب منسوب ہیں۔ حضرت امام محمد باقرؑ کی عظمت ہر ایک عام و خاص کی زبان پر تھی آپؑ کے زمانہ میں جب بھی ہاشمی، علوی اور فاطمی خاندان کی شرافت، عظمت، کرامت وغیرہ کی بات ہوتی تھی تو صرف آپؑ کو ہی مذکورہ تمام صفات کا وارث سمجھا جاتا تھا۔ آپؑ کی عظمت کے بارے میں بس اتنا کافی ہے کہ رسول اکرمؐ اپنے ایک صحابی (جناب جابر بن عبداللہ انصاری) کے ذریعہ آپؑ کو سلام کہا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنے صحابی سے فرمایا: اے جابر تم زندہ رہو گے اور میرے بیٹے محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالبؑ سے ملاقات کرو گے جن کا نام توریت میں "باقر" ہے اور اس وقت میرا سلام انہیں پہونچانا۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری کو خدا نے طولانی عمر عطا کی اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ ایک دن جناب جابر بن عبداللہ انصاری امام زین العابدینؑ کے گھر تشریف لائے اور گھر میں انہیں پایا جبکہ اس وقت امام محمد باقرؑ کا بچپنا تھا جناب جابر بن عبد اللہ انصاری نے ان سے کہا میرے پاس آؤ، امام محمد باقرؑ قریب آئے تو انہوں نے کہا تھوڑا آگے چل کے جاؤ امام محمد باقرؑ چلے جب واپس آئے تو جناب جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا: خدائے کعبہ کی قسم یہ بچہ پیغمبر اکرمؐ کی مکمل عکاسی کر رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے امام زین العابدینؑ سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے؟ امامؑ نے فرمایا: یہ میرے بیٹے محمدِ باقر ہیں جو میرے بعد امام ہوں گے۔ یہ سنتے ہی جناب جابر بن عبداللہ انصاری کھڑے ہو گئے اور امام محمد باقرؑ کے پاؤں کا بوسہ لینے کے بعد کہا:میں آپؑ پر قربان ہو جاؤں اے فرزند پیغمبرؐ، آپؑ کو پیغمبر اکرمؐ نے سلام بھیجا یہ سنتے ہی امام محمد باقرؑ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا: میرا سلام ہو میرے جد امجد پر جب تک زمین و آسمان قائم ہیں اور آپ پر بھی اے جابر کہ آپ نے ان کا سلام مجھے پہونچایا ہے۔ (امالی شیخ صدوق، ص۲۱۳، چاپ سنگی)
امام باقرؑ کا علم
امام محمد باقرؑ کی سیرت کا ایک پہلو آپؑ کے علم میں پوشیدہ ہے آپؑ کے علم کا سرچشمہ بھی دیگر ائمہ اطہارؑ کی طرح وحیِ پروردگار تھا لہذا آپؑ نے بھی بشری مکتب میں کہیں کچھ نہیں سیکھا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب جابر بن عبداللہ انصاری اپنی اس عمر میں بھی امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے کچھ سیکھ کر جاتے اور ہمیشہ عرض کیا کرتے تھے کہ اے باقر العلوم میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ بچپنے میں ہی خدائی علم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ( علل الشرایع شیخ صدوق، ج۱، ص۲۲۲، چاپ قم)۔
عبداللہ بن عطاء مکی کہتے ہیں: میں نے کسی کے نزدیک دانشوروں و شاگردوں کو اتنا حقیر نہیں پایا جتنا امام محمد باقرؑ کے نزدیک پایا۔ حکم بن عتَیبہ امام محمد باقرؑ کی خدمت میں ایک چھوٹے بچہ کی طرح علم و دانش کے حصول کے لئے آتے تھے جبکہ وہ اپنے زمانے میں لوگوں کے نزدیک بہت بڑی علمی شخصیت کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ ( ارشاد شیخ مفید، ص۲۴۶، چاپ آخوندی)۔ امام محمد باقرؑ کی علمی شخصیت کی حقیقت یہ ہے کہ جابر بن یزید جعفی جب آپؑ سے کوئی روایت نقل کرتے تو کہا کرتے کہ وصیّ اوصیاء، وارث علوم انبیاء محمد بن علی بن علی بن الحسینؑ سے میں نے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( ارشاد شیخ مفید، ص۲۴۶، چاپ آخوندی)
امام رضاؑ کی اخلاقی و سیاسی زندگی
ولادت
آفتابِ امامت جس افق سے بھی طلوع کرے اس کی کرنیں دیکھنے کے لئے آنکھوں میں تاب نہیں ہے اس کی تمازت حیات بخش ہے۔ گیارہ ذیقعدہ سن ۱۴۸ ھجری قمری مدینہ میں امام موسی بن جعفر علیھما السلام کے گھر ایک بچہ کی ولادت ہوئی جو اپنے بابا کے بعد ایمان، علم و امامت وغیرہ میں اپنی مثال آپ تھا جن کا نام علی رکھا گیا اور رضا کے لقب سے مشھور ہوئے۔
زمانہ
آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سن ۱۸۳ھجری قمری میں امام کاظم علیہ السلام کی شھادت کے بعد، پینتیس سالہ زندگی میں خدائی منصب یعنی امامت پر فائز ہوئے اور پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی اس زمانہ میں عباسی خلافت اپنے عروج پر تھی اور وہ علوی قیام سے محفوظ رہنے نیز شیعانِ حیدر کرار کے قلوب کو اپنی جانب مجذوب کرنے کی خاطر کوشان تھی کہ اس خاندان کے ساتھ ظاھری طور پر گہرے تعلقات قائم کرے اور اس طریقہ سے اپنی خلافت کے جواز پر مہر تصدیق لگانے میں کامیاب ہو پائے۔
علم و آگہی
ہمارے ائمۂ اطہار مقام عصمت و امامت نیز امامت کے تقاضہ کے مطابق علم و حکمت کے اعتبار سے اپنے زمانہ کے تمام افراد سے زیادہ آگاہ و عالم تھے اسی بنا پر ہمارے آٹھویں امام نے اپنے بابا کی شھادت کے بعد ہارون کی حکومت میں بے جھجک تبلیغ دین و امامت میں مشغول رہے جیسا کہ آپؑ کے بعض چاہنے والے خطرہ محسوس کرنے لگے لیکن آپؑ واضح طور پر بیان فرماتے کہ جس طرح ابو جھل نے پوری کوشش کی لیکن وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بال بھی ٹیڑھا نہیں کر سکا اسی طرح ہارون بھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہونچا پائے گا۔
امام رضاؑ کی بعض خصوصیات
ابراہیم بن عباس کہتے ہیں: ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام نے گفتگو کرتے وقت کسی پر جور و ستم کیا ہو نیز ہم نے یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ دوسرے کی گفتگو ختم ہونے سے پہلے امامؑ نے اپنی بات کا آغاز کیا ہو۔ وہ ہر گز کسی محتاج کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے، نیکو کاری میں ہمیشہ سبقت لیتے اور مخفیانہ انفاق کرتے راتوں کی تاریکی میں فقراء کی مدد فرماتے ایک معمولی سے گھر میں سکونت پذیر تھے لیکن جب وہ باہر تشریف لے جاتے تو خود کو آراستہ کرتے ہوئے صاف ستھرا لباس پہن کر نکلتے تھے۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 7 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔