تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1787
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 708444
اسلام میں عید غدیر کی اھمیت
جس چیز نے واقعہ غدیر کو جاویدانہ قرار دیا اور اس کی حقیقت کو ثابت کیا ھے وہ اس روز کا ”عید“ قرار پانا ھے۔ روز غدیر، عید شمار ھوتی ھے، اور اس کے شب و روز میں عبادت، خشوع و خضوع، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ھوتی ھے ، اور مومنین اس جشن میں اچھے کپڑے پھنتے اور زینت کرتے ھیں۔
جب مومنین ایسے کاموں کی طرف راغب ھوں تو ان کے اسباب کی طرف متوجہ ھوکر اس کے روایوں کی تحقیق کرتے ھیں اور اس واقعہ کو نقل کرتے ھیں، اشعار پڑھتے ھیں، جس کی وجہ سے ھر سال جوان نسل کی معلومات میں اضافہ ھوتا ھے، اور ھمیشہ اس واقعہ کی سند اور اس سے متعلق احادیث پڑھی جاتی ھیں، جس کے بنا پر وہ ھمیشگی بن جاتی ھیں۔ عید غدیر سے متعلق دو طرح کی بحث کی جاسکتی ھے:
۱۔ شیعوں سے مخصوص نہ ھونا
یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نھیں ھے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ھیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ھیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ھونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ھے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاھنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ھے چاھے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ھوں یا چوتھا خلیفہ۔
بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ھیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ھے [1]ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں:
”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ھے اور اس روز کو عید شمار کیا ھے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا اور تمام مخلوقات پر فضیلت دی ھے۔“[2]
نیز موصوف کہتے ھیں:
”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ھو وھی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ھے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ھے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ھے۔“[3]
تاریخی کتب سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ امت اسلامیہ مشرق و مغرب میں اس دن کے عید ھونے پر متفق ھیں، مصری، مغربی اور عراقی (ایرانی و ھندی) اس روز کی عظمت کے قائل ھیں، اوران کے نزدیک روز غدیر نماز، دعا، خطبہ اور مدح سرائی کا معین دن ھے ،اور اس روز کے عید ھونے پر ان لوگوںکا اتفاق ھے[4]
حضرت معصومہؑ کی زیارت کی فضیلت
حضرت امام صادقؑ کا ارشاد ہے : اِنَّ زِیَارَتُهَا تعدل الجنة ۔ان کی زیارت کا صلہ اور اجر جنت ہے ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ چودہ معصومینؑ کی زیارت کے بعد جتنی ترغیب آپ کی زیارت کے بارے میں دلائی گئی ہے اتنی ترغیب ائمہ کے کسی اور فرزندیاکسی بھی ولی خدا کے بارے میں نہیں ملتی ۔تین معصوم شخصیتوں نے آپکی زیارت کی تاکید فرمائی ہے ،جن روایات میں آپکی زیارت کی فضیلت بیان ہوئی ہے ان میں سے بعض تو آپکی ولادت سے قبل امام معصوم سے صادر ہوئی ہیں ،یہاں تک کہ بعض روایات تو آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی ولادت سے قبل بیان ہوئی ہیں ۔
شیخ صدوق نے صحیح سند کے ساتھ حضرت امام رضاؑ سے روایت کی ہے کہ : مَنْ زَارَهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّة، جو ان کی زیارت کرے گا اسے جنت یقینانصیب ہوگی ۔
حضرت امام محمدتقیؑ کا ارشاد ہے : مَنْ زَارَ عَمَّتِی بِقُم فَلَهُ الْجَنَّة، جس شخص نے بھی قم میں میری پھو پھی کی زیارت کی وہ جنتی ہے ۔
حضرت امام صادقؑ کا ارشاد ہے : اِنَّ زِیَارَتُهَا تعدل الجنة ۔ان کی زیارت کا صلہ اور اجر جنت ہے ۔
حضرت امام رضاؑ کا ارشاد ہے :یا سعد«مَنْ زَارَهَا فَلَهُ الْجَنَّة أوْ هُوْ مِنْ اَهْلِ الْجَنَّة» ۔ ائے سعد جو شخص بھی ان کی زیارت کرے گا اس کا اجر جنت اور وہ اہل بہشت میں سے ہوگا ۔
امام رضا (علیہ السلام) کی نظر میں امامت
سوال : امام رضا (علیہ السلام) نے امامت کے عہدہ کی تعریف میں کیا فرمایا ہے؟
جواب : امام رضا (علیہ السلام) نے عبدالعزیز بن مسلم سے فرمایا: امت کے درمیان کیا لوگ امامت کے مقام و منزلت کو جانتے ہیں جو امام کو انتخاب کرنے کا اختیار ان کو دیا جائے؟ یقینا امامت کی منزلت بہت بلند، اس کی شان بزرگ، اس کی جگہ اتنی بلند و بالا ہے کہ لوگ اپنی عقلوں کے ذریعہ اس تک نہیں پہنچ سکتے اور اپنی رائے اور اپنے انتخاب کے ذریعہ امام کو منصوب نہیں کرسکتے ۔
یقنا امامت کا مقام ایسا ہے کہ خداوندعالم نے نبوت اور خلت کے بعد تیسرے مرتبہ میں حضرت ابراہیم کو امام بنایا اور ان کو اس فضیلت سے مشرف کیا اور ان کے نام کو بلند کرتے ہوئے فرمایا : یقینا میں نے تمہیں لوگوں کا امام بنایا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خوش ہو کر خداوند عالم سے عرض کیا : اور میری اولاد سے بھی؟ تو خدا نے فرمایا: میرا عہدہ اور وعدہ ظالمین تک نہیں پہنچ سکتا ۔
پس کون ہے جو امام کو پہچان سکے اورکون ہے جس کے لئے امام کا انتخاب کرنا ممکن ہو؟
ھیھات ! ھیھات ! یہاں پرامام کے فضائل کو بیان کرنے سے عقلیں دنگ اور پریشان ہیں، آنکھوں میں نور نہیں، بزرگ چھوٹے ، حکماء حیران و پریشان، عقلمندوں کی فکریں چھوٹی اورخطیب بیکارہوگئے اور ا ن سب نے اپنے عجز و ناتوانی کا اعتراف کرلیا، کس طرح وہ امام کی حقیقت اور اس کے اوصاف کو بیان کرسکتے ہیں؟
ممکن نہیں ہے کس طرح اور کہا ں سے؟ جب کہ وہ صفت بیان کرنے والوں سے بلند اور آسمان میں ستاروں کی جگہ پر ہے، وہ کہاں اور انسان کاانتخاب کہاں؟وہ کہاں اورانسان کی عقلیں کہاں؟ وہ کہاں اور اس کے جیسا کہاں؟
_________________
۱۔ اصول کافی، ج۱، ص ۱۹۸۔ ۲۰۳۔
۲۔ غلی اصغر رضوانی، امام شناسی و پاسخ بہ شبھات(۱)، ص ۶۴۔
*مسئلہ قدس ۔۔۔دو عظیم رہنما*
تحریر: منظوم ولایتی
ہر شخص کا ایک اپنا دائرہ کار ہوتا ہے۔اس سے باہر کا وہ مکلف نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی وہ ہر کام کرسکتا ہے۔قرآن مجید نے بھی اس چیز کو بیان فرمایا ہے۔لا یُکلّفُ اللہُ نفساٙٙ الا وسعٙھا۔ قومی اور اجتماعی سطح کے مسائل کا حل ہمیشہ بڑی سطح کے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ایسے میں لیڈرز کی ذمہ داریاں "دو چند" ہی کیا "کئی چند" ہوجاتی ہیں۔
پچھلی کئی دہائیوں سے امت مسلمہ کے لیے درپیش مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فلسطین اور قدس کا ہے۔ استعماری طاقتوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں ایک تاریخی تسلسل ہے۔ جن میں سرفرہرست قبلہ اول و انبیاء کی سرزمین اور مسلمانوں کےوطن پر باہر سے آئے ہوئے صیہونیوں کا قبضہ،لاکھوں افراد کو بے گھر،شہید اور ظلم کے پہاڑ توڑنا اور بچےبوڑھے،خواتین اور دیگر بے گناہوں پر کئے گئے مظالم ہیں۔ جو ہر باشعور اور باغیرت انسان کی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
1948ء میں امریکہ،برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے وجود میں لائی جانے والی اس ناجائز ریاست اسرائیل اور اس کی تاریخ اور سیاہ کارناموں سے امت مسلمہ کی نئی نسل کا آگاہ ہونا ناگزیر اور ازحد ضروری ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ان بیتی گئی دہائیوں میں بدقسمتی سے قدس کے ایشو پر امت مسلمہ کے بہت کم رہنماء سنجیدہ پائے گئے ہیں۔ جن میں امام خمینی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سرفہرست ہیں۔ ہم اپنی اس مختصر تحریر میں ان دو عظیم رہنماوں کے قدس کے حوالے سے بیانات خلاصةٙٙ قارئین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔
امام خمینی کا ایک تاریخی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قدس اور مسئلہ فلسطین کو پوری امت اسلامیہ سے مربوط کر کے پوری دنیا کی توجہ قدس کی طرف مبذول کرائی۔ اور اس سلسلے میں بہت سے اقدامات اٹھائے۔ ان میں سے ایک اہم قدم رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع کو "عالمی یوم القدس" قرار دے کر تمام مسلمانوں کو اسرائیل کی ناجائز ریاست کے خلاف نفرت اور قدس اور فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن قرار دینا ہے۔
امام خمینی رحمة اللہ علیہ اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں: "یوم القدس ایسا روز ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کو آگاہ کر دینا چاہئے کہ اب اسلام تمہارے خبیث آلہ کاروں کی وجہ سے تمہارے تسلط میں نہیں رہے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے بیت المقدس مسلمانوں کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔لہٰذا اسرائیل کی نابودی اور مظلوم فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی انسانیت کا تقاضا ہے"۔
قائد اعظم محمد علی جناح سنہ 1948ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈبن گوریان کے ٹیلیگرام کے جواب میں فرماتے ہیں:
"دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کی بجائے جان دے دے گا. مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوؤں کے خلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے۔۔؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہونگی"۔
قرآن و سنت کی روشنی میں رمضان مبارک کی خصوصیات اور معنوی اثرات
ہجری قمری سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے جس میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور سے قربت خدا کی نیت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور بعض دوسرے مباح کام ترک کر دیئے جاتے ہیں۔ شرعی زبان میں اس ترک کا نام "روزہ" ہے جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔ روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ البتہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے ہی مختص ہے۔ اسی لئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی ایک دعا میں جو صحیفہ سجادیہ میں موجود ہے "شہرالاسلام" یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔
ماہ مبارک رمضان کی وجہ تسمیہ:
ماہ مبارک رمضان کو "رمضان" کے نام سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟۔ اس سلسلے میں چند اقوال ذکر کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر قول اپنی جگہ ایک دلیل رکھتا ہے لیکن ہم یہاں ان اقوال میں جو وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اسی کے ذکر پر اکتفا کریں گے:
۱۔ رمضان "رمض" سے ماخوذ ہے جس کے معنی "دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے" کے ہیں۔ اسی لئے جلتی ہوئی زمین کو "رمضا" کہا جاتا ہے اور جب پہلی دفعہ روزے واجب ہوئے تو ماہ مبارک رمضان سخت گرمیوں کے ایام میں پڑا تھا۔ جب روزوں کی وجہ سے گرمیوں کا احساس بڑھا تو اس مہینے کا نام رمضان پڑ گیا۔ یا یہ کہ یہ مہینہ گناہوں کو اس طرح جلاتا ہے جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کو جلا دیتی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
"انما سمی رمضان لان رمضان یرمض الذنوب"۔
[رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے]۱۔
۲۔ یہ کہ رمضان "رمضی" سے ماخوذ ہے جس کے معنی "ایسا ابر و باراں ہے جو موسم گرما کے اخیر میں آئے اور گرمی کی تیزی کو دور کر دے"۔ رمضان کا مہینہ بھی گناہوں کے جوش کو کم کرتا ہے اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔
۳۔ رمضان کسی دوسرے لفظ سے نہیں لیا گیا بلکہ یہ اللہ تعالی کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ چونکہ اس مہینے کو خداوند عالم کے ساتھ ایک خصوصی نسبت حاصل ہے لہذا خدا کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے رمضان کہلاتا ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ منسوب ہے:
"لا تقولوا ھذا رمضان و لا ذھب رمضان و لا جاء رمضان فان رمضان اسم من اسماء اللہ تعالی و ھو عز و جل لا یجیئو و لا یذھب ولکن قولوا شھر رمضان"۔
[یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لئے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور خداوند عالم کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا کہا کرو ماہ رمضان]۲۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 15 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔