تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1787
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 708476
ماہ رمضان کے فضائل
شیخ صدوق(رح) نے معتبر سند کیساتھ امام علی رضا -سے اور حضرت نے اپنے آبائ طاہرین (ع) کے واسطے سے امیرالمومنین -سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک روز رسول اللہ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میںگناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوںسے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میںخدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوںمیں قرار دیا ہے کہ اس میں سانس لینا تمہاری تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کیے جاتے اور دعائیںمنظور کی جاتی ہیں۔
پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میںخدا ئے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا وہ بدبخت اور بدانجام ہوگا اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنے فقیروں اور مسکینوںکو صدقہ دو، بوڑھوںکی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرواور رشتہ داروںکے ساتھ نرمی و مہربانی کرو اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ کہ جو نہ کہنی چاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے روا نہیں ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں ،اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاؤ کہ یہ بہترین اوقات ہیںجن میں حق تعالیٰ اپنے بندوںکی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں وہ انکو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیںگروی پڑی ہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوںکے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کرو کیونکہ خدا نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھارکھی ہے کہ ا س مہینے میں نمازیںپڑھنے اور سجدے کرنے والوںکو عذاب نہ دے اور قیامت میںان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے اے لوگو! جو شخص اس ماہ میںکسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوںکی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔
آنحضرت(ص) کے اصحاب میںسے بعض نے عرض کی یا رسول (ص) اللہ! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیںرکھتے تب آپ(ص) نے فرمایا کہ تم افطار میںآدھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچا سکتے ہو۔ کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا جو اس سے کچھ زیادہ دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو۔ اے لوگو! جو شخص اس مہینے میںاپنے اخلاق درست کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزاردے گا۔ جب کہ لوگوں کے پاؤں پھسل رہے ہوںگے۔ جو شخص اس مہینے میںاپنے غلام اور لونڈی سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت کے ساتھ لے گا اور جو شخص اس مہینے میں کسی یتیم کو عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میں خدا اس کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے نیکی اور اچھائی کا برتاؤ کرے تو حق تعالیٰ قیامت میںاس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائے رکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوںسے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنے سایہ رحمت سے محروم رکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میںسنتی نمازیں بجا لائے تو خدا ئے تعالیٰ قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا۔ اور جو شخص اس ماہ میں اپنی واجب نمازیں ادا کرے توحق تعالیٰ اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کردے گا۔ جبکہ دوسرے لوگوںکے پلڑے ہلکے ہوںگے۔ جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی ایک آیت پڑھے تو خداوند کریم اس کے لیے کسی اور مہینے میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا، اے لوگو! بے شک اس ماہ میںجنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ انہیںتم پر بند نہ کرے۔ دوزخ کے دروازے اس مہینے میں بند ہیں۔ پس خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے اور شیطانوں کو اس مہینے میںزنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیںتم پر مسلط نہ ہونے دے . الخ
ماہ مبارک رمضان کی فضیلت کے بارے میں 40 احادیث
1- ارکان اسلام:
قال الباقر عليه السلام: بني الاسلام علي خمسة اشياء، علي الصلوة و الزكاة و الحج و الصوم و الولايه.
امام باقر عليہ السلام نے فرمایا ہے کہ: اسلام کے پانچ ارکان ہیں، نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت۔
فروع كافي، ج 4 ص 62، ح 1
2- روزہ رکھنے کا فلسفہ:
قال الصادق عليه السلام: انما فرض الله الصيام ليستوي به الغني و الفقير.
امام صادق عليہ السلام نے فرمایا ہے کہ: خداوند نے روزہ اس لیے واجب قرار دیا ہے کہ تا کہ اس کے ذریعے سے غنی اور فقیر کے فرق کو آپس میں مٹا سکے۔
من لا يحضره الفقيه، ج 2 ص 43، ح 1
3- روزہ انسان کے اخلاص کا امتحان ہے:
قال اميرالمومنين عليه السلام: فرض الله ... الصيام ابتلاء لاخلاص الخلق،
امام علی عليہ السلام نے فرمایا ہے کہ: خداوند نے روزہ اس لیے واجب قرار دیا ہے کہ تا کہ اس کے ذریعے سے انسانوں کے اخلاص کا امتحان لے سکے۔
نهج البلاغه، حكمت 252
4-روزه قیامت کی یاد دلاتا ہے:
قال الرضا عليه السلام: انما امروا بالصوم لكي يعرفوا الم الجوع و العطش فيستدلوا علي فقر الاخر.
امام رضا عليہ السلام نے فرمایا ہے کہ: انسانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کے درد کو سمجھ سکیں اور اسی کے ذریعے سے قیامت کے دن کی ضرورت اور نیاز کو بھی سمجھ سکیں۔
وسائل الشيعه، ج 4 ص 4 ح 5 علل الشرايع، ص 10
5-روزه رکھنا بدن کی زکات ہے:
قال رسول الله صلي الله عليه و آله لكل شيئي زكاة و زكاة الابدان الصيام.
رسول خدا صلي الله عليہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ: ہر چیز کی ایک زکات ہے اور بدن کی زکات روزہ رکھنا ہے۔
الكافي، ج 4، ص 62، ح 3
6-روزه جہنم کی آگ سے ڈھال ہے:
قال رسول الله صلي الله عليہ و آلہ: الصوم جنة من النار.
رسول خدا صلي الله عليہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ: روزہ جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہے، یعنی روزہ رکھنے سے انسان جہنم کی آگ سے محفوظ رہتا ہے۔
الكافي، ج 4 ص162
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مھر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت س کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔ واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاو۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا: "ابوھا فداھا" یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔ 200 ھجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت س کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ س کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ھجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر "ساوہ" پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر "قم" کا رخ کریں۔ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔
حیات طیّبہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پرایک طائرانہ نظر
حال و هوای حرم حضرت «فاطمه معصومه سلام الله علیها» در شب وفات ایشان
حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہاکی مبارک نسل سے فاطمہ نامی ایک پر برکت بیٹی ہیں جو معصومہ اور کریمۂ اہل بیت کے القاب سے معروف ہیں ۔
والد بزرگوارحضرت امام موسی کاظم ؑاور والدہ گرامی روایات کی روسے وہی حضرت امام رضاؑکی والدہ گرامی ہیں۔ مورّخین نے حضرت معصومہ کی ولادت
با سعادت کی صحیح تاریخ یکم ذیقدہ الحرام ۱۷۳ھ ق قمری (مدینہ منوّرہ) لکھی ہے اس بزرگوار خاتون نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جس میں تمام اخلاقی فضائل موجودتھے۔ عصمت وعفت اور علم وحکمت اس خاندان کی نمایاں صفات شمار ہوتی ہیں۔حضرت معصومہ (ع) کی اخلاقی اور علمی خصوصیات کی بنا پر علمائے دین اس امر کے معتقد ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم ؑ کی اولاد میں حضرت امام رضاؑکے بعد کوئی ایک بھی حضرت معصومہ کا ہم مرتبہ نہیں ہے۔ حضرت معصومہ (ع) اس قدر متقی و پرہیزکار تھیں کہ حضرت ؑ کی زیارت میں نقل ہوا ہے: ‘‘السلام علیک ایتھاالطاھرۃالحمیدۃ الکبری الرشیدۃ التّقیّۃ النّقیّۃ المرضیّۃ ’’ اس مقدس بی بی کےمزید فضائل میں شفاعت کرنے کا رتبہ و مقام ہے ۔لہٰذا روایات اور دینی آثار میں حضرتؑ کےشفیعہ ہونے کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں:حضرت(فاطمہ معصومہؑ)کی شفاعت کی برکت سے میرے تمام شیعہ جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔حضرت معصومہ ؑ اپنے مہربان بھائی کی پناہ و سرپرستی میں زندگی بسر کر رہی تھیں، حضرت ؑکی مدینہ سےہجرت اور خراسان میں مقیم ہو جانے کے بعد حضرت کی ہمشیرہ گرامی اپنے مہربان بھائی کے دیدار وزیارت کے لیے مدینہ سے مروکی راہی ہوگئیں لیکن راستے میں ہی قم میں داخل ہونے کے بعد ۱۷ دن بیمار رہنے کےبعد جہان جاودانی کو سفر کر گئیں۔ حضرت معصومہؑ کے پیکراقدس کو تشییع کرنے کے بعدنہایت عزت و احترام کے ساتھ بابلان میں دفن کردیاگیا۔
امام حسن عسکری (ع) کی سیاسی سیرت پر طائرانہ نظر
امام حسن عسکری (ع) نے سن ۲۳۲ھ،ق میں مدینہ میں ولادت پائی آپؑ اپنے بابا کی طرح عباسی خلفاء کے حکم کے مطابق سامراء کے عسکر نامی محلہ میں
(ع) نے خفیہ طور پر سیاسی سرگرمیاں انجام دیں نمونہ کے طور پر امام (ع) کے قریبی چاہنے والے عثمان بن سعید تیل بیچنے کے بہانے سرگرمی کیا کرتے اور امامؑ کے شیعہ تمام رقومات شرعی ان کے ذریعہ امامؑ تک پہنچاتے۔
امام حسن عسکری (ع) کا ایک موقف شیعوں کی مالی امداد اور حمایت میں پوشیدہ ہے بعض اوقات ایسا ہوتا کہ آپؑ کے چاہنے والوں میں جب کوئی تنگدستی کی شکایت کرتا تو آپؑ اس کی مشکلات کو دور کرتے امامؑ کا یہ قدم رکاوٹ بنتا تھا کہ وہ مالی مشکلات کی وجہ سے کہیں عباسی حکومت کا طرفدار نہ بن جائے اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلانا شروع کر دے۔ ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: میں مالی حالات کا شکار ہو گیا میں سوچ رہا تھا کہ اپنی مالی مشکلات کا تذکرہ امام (ع) کو خط لکھ کر ارسال کروں لیکن مجھے شرم محسوس ہو رہی تھی لیکن جب میں اپنے گھر پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ امامؑ نے سو درہم بھیجے ہیں اور ایک خط میں انہوں نے تحریر کیا کہ جب بھی تمہیں ضرورت محسوس ہو تو شرم نہ کرنا ہم سے مطالبہ کرنا اور خدا کی مدد سے تم اپنی مراد حاصل کر لو گے۔ امام حسن عسکری (ع) کی منجملہ سیاسی سرگرمیوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپؑ نے شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود اپنے چاہنے والوں کو سیاسی تقویت پہنچائی کیونکہ شیعوں کے بڑی بڑی شخصیات سیاسی دباؤ کا شکار تھیں لہذا امام (ع) انہیں صبر و تحمل کی تلقین کرتے ہوئے سیاسی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا کرتے۔ امام (ع) نے علی بن حسین بن بابویہ کو ایک خط میں لکھا: ہمارے شیعہ میرے بیٹے کے ظہور تک مسلسل غم و اندوہ کا شکار رہیں گے میرا بیٹا وہ ہے جس کے بارے میں رسول خداؐ نے بشارت دی کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہے۔ امام حسن عسکری (ع) کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ دیگر ائمہؑ کی نسبت خدا کی جانب سے عطا کردہ علمی صلاحیتوں کو زیادہ واضح کرتے کیونکہ آپؑ کی زندگی کے حالات کافی ناسازگار تھے بالخصوص جب امام ھادی علیہ السلام کو سامراء منتقل کیا گیا تو آپؑ شدید کنٹرول میں تھے جس کے نتیجہ میں بہت سے شیعوں کے دلوں میں بھی شک و تردید پیدا ہو گیا لہذا امام (ع) ان کی ہدایت اور گمراہوں سے ان کی نجات کے لئے بعض مزید علمی صلاحیتوں اور غیبی امداد کا سہارا لیتے۔ امام (ع) کی کاوشوں کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپؑ کا زمانہ ایسا تھا جس میں ہر طرف سے مختلف قسم کی افکار اسلامی معاشرہ کو دھمکا رہی تھیں لیکن آپؑ نے اپنے آباء و اجداد کی طرح ایک لمحہ بھی غفلت نہیں برتی اور اسلام مخالف تمام قسم کے منحرفانہ مکاتب فکر منجملہ صوفیوں، غالیوں، واقفیوں وغیرہ کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا۔ تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کا زمانہ عباسی حکومت کا بدترین دور شمار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ حکام زمانہ کی عیش و عشرت کی وجہ سے بہت سی اسلامی اقدار کا خاتمہ ہو چکا تھا لہذا اگر امام (ع) کی مسلسل تلاش و کوشش نہ ہوتی تو عباسی حکومت کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا خاتمہ ہو جاتا اگرچہ امام (ع) پر عباسی حکومت کا مکمل کنٹرول تھا لیکن اس کے باوجود بہت سے اسلامی مقامات پر امام (ع) کے اپنے نمائندے پائے جاتے تھے اور اس کے نتیجہ میں آپؑ مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہتے تھے بہت سے شہروں میں مساجد اور دینی مراکز امام (ع) کے حکم سے تعمیر کئے گئے، منجملہ شہر قم میں مسجد امام حسن عسکری (ع)۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام (ع) اپنی امامت اور اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی تمام قسم کی مشکلات اور کمیوں کو دور کرنے کے درپے تھے۔ امام حسن عسکری (ع) کے دور میں سیاسی دباؤ اور محدودیت کی دو وجہیں تھیں ایک وجہ عراق میں شیعوں کے لئے حالات سازگار ہو رہے تھے اور وہ عباسی خلفاء کی حکومت کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ امامت الہی امام علی (ع) کے بیٹوں میں باقی ہے اور دوسری جانب سے اس زمانہ میں صرف امام عسکری (ع) ہی تھے جو اس خاندان کی ممتاز شخصیت تھی، عباسی حکومت کو معلوم تھا کہ مھدی موعود (عج) امام حسن عسکری (ع) کی نسل سے ہوں گے لہذا ان کی کوشش تھی امام (ع) کے بیٹے کو قتل کردیں لہذا سخت دباؤ اور سختیوں میں امام (ع) پر مکمل کنٹرول رکھے ہوئے تھی۔
منبع: hawzah.net
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 9 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔