تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1787
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 708493
امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟
قسط 1
مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا؟
اِس سوال پر اسلامی تاریخ کے ہردور میں اظہارِ خیال کیاگیا ہے اور اِس تحریک اور قیام کے مختلف مقاصد ومحرکات بیان کئے گئے ہیں۔اظہارِ خیال کرنے والے بعض حضرات نے انتہائی جزئی مطالعے، کوتاہ فکری، کسی خاص فکری رجحان سے وابستگی یا بدنیتی کی بنا پرامام حسین ؑ کے قیام کا مقصد ایسی چیزوں کو قرار دیا ہے جو اسلام کی روح، تاریخی حقائق، امام حسین ؑ کی شخصیت اور آپ ؑ کے مقامِ عصمت وامامت کے یکسرمنافی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ نواسہ رسول کا اقدام نسلی یا قبائلی چپقلش کا نتیجہ تھا، یا امام ؑ نے امت کے گناہوں کی بخشش کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیاوغیرہ وغیرہ اِسی قسم کے مقاصد میں سے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مصنفین، شعرااور مقررین بھی، بے سوچے سمجھے ایسے مقاصد کی ترویج اور تشہیر کیا کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بھرپور کام کی ضرورت اب بھی باقی ہے اور اِس سلسلے میں مختلف زاویہ نگاہ سے جائزے اور تحقیق کاکام جاری رہنا چاہیے۔ دو مضامین پر مشتمل زیرِنظر کتابچہ اِسی جذبے اور خواہش کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔ پہلا مضمون حوزہ علمیہ قم کے ممتازعالمِ دین آیت اللہ ابراہیم امینی سے ایک انٹرویو ہے، جو امام خمینی علیہ الرحمہ کی چھٹی برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار بعنوان ” امام خمینی و فرہنگِ عاشورا“ کے موقع پر علامہ امینی سے کیا گیاتھا۔ اِس انٹرویو میں جنابِ عالی نے امام حسین ؑ کے کلمات کی روشنی میں آپ ؑ کے قیام کا مقصد واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا مضمون بھی حوزہ علمیہ قم ہی کی ایک علمی شخصیت حجت الاسلام محمد باقر شریعتی سبزواری کی تحریر ہے، جس میں اُس دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے امام حسین ؑ کے فرامین ہی کے ذریعے امام ؑ کی تحریک کے مقصد کی وضاحت کی گئی ہے۔
امید ہے امام حسین ؑ کی تحریک کو سمجھنے اور اُس سے سبق لیتے ہوئے دورِ حاضر میں اپنے فریضے کے تعین کے سلسلے میں تمام پڑھنے والوں خصوصاً جواں نسل کے لیے اِن مضامین کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔
امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟
سوال: امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کے ذریعے کیا ہدف یا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟
شہادت، احیائے اسلام، اصلاحِ امت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، خدا کی طرف سے عائد فریضے کی ادائیگی، یزید کی ظالم حکومت کی سرنگونی اور عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام، وہ نمایاں نقطہ ہائے نظر ہیں جو امامؑ کی تحریک کی تفسیر اورآپ ؑ کے مقاصد و محرکات کی تشریح کے سلسلے میں محققین اوراہلِ نظرافراد کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں۔ عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اہداف اور اس بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے اورآپ اپنی رائے کا دوسری آرا، خیالات اور نظریات سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں؟
* امام حسین ؑ کے قیام کے ہدف و مقصد کے بارے میں مختلف نظریات اور خیالات پائے جاتے ہیںمصنفین و متکلمین نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مختلف مقاصد بیان کیے ہیںکبھی اس تحریک کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کاپورا دستورِ عمل (program)خداوندِ عالم کی جانب سے مقرر کردیا گیا تھا اور امام حسین ؑ کا کام محض اس کو جامہ عمل پہنانا تھا اور آپ ؑ پر لازم تھا کہ خداوندِ متعال اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے آپ ؑ جن کاموں کے لیے مامور کیے گئے ہیں انہیں بغیر کسی معمولی ردوبدل کے قدم بقدم انجام دیں۔
بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں امام حسین ؑ کی تحریک ایک سوچی سمجھی تحریک تھییہ لوگ کبھی اس تحریک کے مقصد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کبھی حکومتِ وقت یعنی یزید کی حکومت سے ٹکراؤ اور بسا اوقات حکومتِ اسلامی کے قیام کے لیے جدوجہد قرار دیتے ہیںکچھ دوسرے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ امام حسین ؑ پر ایک فریضہ عائد ہوتا تھا اورآپ ؑ نے تعبداً اپنی یہ ذمے داری پوری کی، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔ ۔
اِس بارے میں اور دوسری باتیں بھی بیان اور تحریر کی جاتی ہیںباوجود یہ کہ اس بارے میں کافی کتب تحریر کی گئی ہیں اور مختلف نظریات اور افکار کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اب تک یہ مسئلہ بخوبی واضح نہیں ہوا کہ اس تحریک میں امام حسین ؑ کی سوچ کیا تھی۔
یہ محض تاریخی بحث نہیں، بلکہ ایک ایسی بحث ہے جو تحریکِ اسلامی، حکومتوں، حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ایسے افراد کے لیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں بطورِ کلی ایک مشعلِ راہ ہوسکتی ہےامام حسین ؑ جو ایک معصوم فرد اور امام تھے، اُن کا طرز و اسلوب قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہےافسوس کی بات ہے کہ جس طرح اِس مسئلے کی وضاحت ہونی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی اور نہ ہی (امام ؑ کی) اس تحریک سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے۔
امام حسین ؑ کے کلمات آپ ؑ کے ہدف اور محرکات کی ترجمانی کرتے ہیں اِس موضوع پر تحقیق اور اِس کی تشریح کے لیے ایک مفصل اور جداگانہ تالیف کی ضرورت ہے جو سرِ دست اِس مختصر موقع اور وہ بھی انٹرویو کی صورت میں ممکن نہیںالبتہ مختصر طور پر کہوں گا کہ ہمیں امام حسین ؑ کے مقصد اور ہدف کو خودآنجناب ؑ کے کلمات سے اخذ کرنا چاہیےجن لوگوں نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد پر گفتگو کی ہے، اُن میں سے بھی اکثر نے امام ؑ کے کلمات کا سہارا لیا ہےلیکن کیونکہ امام حسین ؑ کے کلمات بکھرے ہوئے اور}موقع محل کی مناسبت سے{ مختلف ہیں اِس لیے اِن حضرات میں سے ہر ایک نے ان میں سے کسی ایک حصے کو لے کر اس سے استفادہ کیا ہے اور دوسرے مفاہیم سے صرفِ نظر کیا ہے اور صرف کسی ایک پہلو پر اپنی فکر مرکوز رکھی ہے۔
ہم ابتدا میں امام حسین ؑ کے ان کلمات میں سے کچھ کو بیان کریں گے جو آپ ؑ نے اپنے ہدف کے بارے میں فرمائے ہیں اور اس کے بعد ان کی جمع بندی کر کے ان سے نتیجہ اخذ کریں گےاگر ہم ان مختلف کلمات کا باہم اور یکجا کرکے تجزیہ کریں، تو سب ایک ہی راہ کی وضاحت کرتے ہیں، اور یوں ان میں تضادا ور اختلاف نظر نہیں آتا، بلکہ یہ سب ایک ہی ہدف کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ ہدف بھی بخوبی روشن اور واضح ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت
روایات میں ہر خوشی و غمی کی مناسبت پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت ،مجالس ،محافل اور ان کی عزاداری کی رغبت دلائی گئی ہے چونکہ اگر ذکر حسینؑ زندہ ہے تو اسلام اور توحید زندہ ہے اس طرح قیامت تک کے لیے امام حسین علیہ السلام کے طفیل اسلام کی حفاظت ہوتی رہے گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ کَرْبَلَاءَ حَرَماً آمِناً مُبَارَکاً قَبْلَ أَنْ یَتَّخِذَ مَکَّةَ حَرَماً‘‘خداوندمتعال نے کربلا کو امن و برکت کا حرم مکہ معظمہ سے پہلے قرار دیا تھا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ حَجَّ أَلْفَ حَجَّةٍ ثُمَّ لَمْ یَأْتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ(ع) لَکَانَ قَدْ تَرَکَ حَقّاً مِنْ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ سُئِلَ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ حَقُّ الْحُسَیْنِ ع مَفْرُوضٌ عَلَى کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘اگر تم میں سے کوئی ہزار مرتبہ حج انجام دے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے نہ جائے تو اس نے یقینی طور پر حقوق الہٰی میں سے حق کو ترک کردیا ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اسے مؤاخذہ کیا جائے گا۔پھر حضرت نے ارشاد فرمایا:امام حسین علیہ السلام کا حق ہر مسلمان پر واجب ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ لَمْ یَأْتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ(ع) وَ هُوَ یَزْعُمُ أَنَّهُ لَنَا شِیعَةٌ حَتَّى یَمُوتَ فَلَیْسَ هُوَ لَنَا بِشِیعَةٍ وَ إِنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَهُوَ مِنْ ضِیفَانِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کے نورانی مرقد کی زیارت کے لیے نہ جائے اور یہ تصور کرتا ہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے اور اسی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے تو وہ ہمارا شیعہ ہی نہیں اور اگر جنت میں بھی چلا جائے تو بہشتیوں کا مہمان ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَوَّضَ الْحُسَیْنَ(ع)مِنْ قَتْلِهِ أَنْ جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِی ذُرِّیَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِی تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ وَ لَا تُعَدَّ أَیَّامُ زَائِرِیهِ جَائِیاً وَ رَاجِعاً مِنْ عُمُرِهِ‘‘خداوندمتعال نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے عوض امامت کو اُن کی نسل میں سے قرار دیا،اُن کے مقتل کی مٹی میں شفاء قرار دی ،اُن کے مرقد منور کو مستجاب الدعا قرار دیا اور اُن کے زائرکے آمد و رفت کے ایام کو اس کی زندگی میں سے شمار نہیں کیا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) بِشَطِّ الْفُرَاتِ کَمَنْ زَارَ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ‘‘جو بھی شط فرات کے نزدیک امام حسین کی زیارت کرے وہ اس طرح ہے جس طرح اس نے عرش پر خداوندمتعال کی زیارت کی ہو۔
حضرت امام جعفرصادق اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیمتالسلام سے ایک ہی مضمون پر مبنی روایت نقل ہوئی ہے جس میں یہ دو بزرگوار امام ارشاد فرماتے ہیں:’’من زار الحسین(ع)عارفا بحقه غفر الله له ما تقدم من ذنبه و ما تأخر‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے ساتھ ان کی قبر مطہر کی زیارت کرے خداوندمتعال اس کے تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف کردے گا
امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کا ثواب
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کے ثواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مندرجہ ذیل روایت کتاب کامل الزیارات سے نقل کی گئی ہے۔
اس روایت کا متن اس طرح ہے:
قال الامام الصادق علیہ السلام :
وَ مَنْ ذُکِرَ اَلْحُسَیْنُ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَیْنِهِ [عَیْنَیْهِ] مِنَ اَلدُّمُوعِ مِقْدَارُ جَنَاحِ ذُبَابٍ کَانَ ثَوَابُهُ عَلَی اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَمْ یَرْضَ لَهُ بِدُونِ اَلْجَنَّةِ.
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اگر کسی شخص کے ہاں امام حسین علیہ السلام کا ذکر ہو اور(ذکر حسین کی وجہ سے) مکھی کے پر کے برابر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائے تو اس کا اجر و ثواب خدا پر ہے اور (بیشک)حق تعالی بہشت سے کمتر اس کے لیے راضی نہیں ہوگا۔
حضرت مسلم ع کی شخصیت پر ایک نظر
محسن اسلام حضرت ابو طالب علیہ السلام کے چار فرزند تھے۔ حضرت جعفر ؑ،حضرت عقیل ؑ، حضرت علی ؑاور حضرت طالب ؑ۔ حضرت مسلم علیہ السلام حضرت عقیل ؑ کے بیٹے تھے۔ جو حضرت علی ؑ اور جناب ام البنین ؐ کے داماد تھے۔ یعنی علمدار حسینی حضرت عباس ؑ کی ہمشیرہ جناب مسلم ابن عقیل سے منسوب تھیں۔ آپ انتہائی شجاع و بہادر ہو نے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی خصوصیات کے مطابق انتہائی متقی و پرہیز گار ، دیندار اور امام حسین ؑ سے محبت کر نے والے ، شیدا اور وفادار تھے۔ امام حسین ؑ کو جناب مسلم ابن عقیل ؑ پر مکمل اعتماد و اعتبار تھا اور اسی اعتماد کی بنا پر امام حسین ؑ نے جناب مسلم ؑ کو اپنا سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تھا۔ جہاں تک مسلم ؑ کی شجاعت و بہادری کا سوال ہے امام حسین ؑ کے پاس تین طاقتیں ایسی تھیں کہ اگر کربلا میں یہ تینوں قوتیں یکجا ہو گئی ہو تیں تو شائد جنگِ کر بلا کا انداز ہی دوسرا ہو تا۔ ان میں ایک شخصیت جناب محمد حنفیہ کی تھی دوسری جناب مسلم ابن عقیل ؑ کی اور تیسری جناب عباسِ علمدار کی مگر چوں کہ امام حسین ؑ کا مقصد جنگ نہیں بلکہ دین اسلام کی بقاء کے لئے قربانیاں پیش کر نا تھا لہٰذا امام عالی مقام نے ان تینوں طاقتوں کو تقسیم کر دیا۔ جناب محمد حنفیہ کو مدینہ منورہ میں ہی چھوڑ دیا اور جناب مسلم ابن عقیل ؑ کو اپنا سفیر و نائب بنا کر کو فہ بھیج دیا۔ صرف جناب عباس ؑ ابن علی ؑ کو اپنے ساتھ کربلا لے گئے۔
امام حسین ؑ کو جناب مسلم ابن عقیل پر مکمل اعتماد تھا جیسا کہ امام حسین ؑ کے ان خطوط سے بھی ظاہر ہے جو انھوں نے معززین کو فہ کے ان خطوط کے جوابات میں لکھے تھے جو اہلِ کوفہ نے انھیں کو فہ تشریف لا نے کے لئے تحریر کئے تھے۔ اہل کوفہ نے لکھا تھا کہ ’’ہم بلا امام ہیں آپ تشریف لے آئیں۔ ہم آپ کے منتظر ہیں۔ اگر آپ تشریف نہ لا ئے تو یوم حشر آپ ہمارے اعمال کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہم نے اتمام حجت کر دیا ہے۔‘‘
امام حسین ؑ نے مومنین کو فہ کو خط لکھا کہ ’’چونکہ تم نے اتمام حجت کی بات کی ہے لہٰذا منجانب اللہ مجھ پر فرض ہے کہ میں تمہاری دعوت کو قبول کروں۔ مقد مہ کے طور پر میں اپنے برادرِ عم (چچا زاد بھائی) اور اپنے معتمد خاص مسلم ؑ ابن عقیل ؑ کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ اگر مسلم ؑ نے مجھے لکھا کہ جو کچھ تم نے لکھا تھا تم اس پر قائم ہو تو میں بہت جلد تمہارے پاس آجا ئوں گا۔ ‘‘ امام حسین ؑ کے اس خط سے جناب مسلم ؑکا معتمد خاص ہو نا مسلم الثبوت ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مکتب کی تعلیمات کا پس منظر حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) کی نظر میں
مشہور روایات کی بنیاد پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت سات ذی الحجة ١١٤ ہجری میں واقع ہوئی ہے (١) لہذا آج ان کی شہادت کے موقع پر ضروری ہے کہ ہم ان کی معرفت حاصل کرتے ہوئے ان کی تعلیمات میں کا مطالعہ کریں اور حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کے اہم نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے امام علیہ السلام کے کلام کی تفسیر مخاطبین کے سامنے پیش کریں ۔
لقب باقر العلوم (علیہ السلام) کے مفہوم میں غور وفکر
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام محمد باقر علیہ السلام کے متعلق باقر العلوم کے لقب سے ملقب ہونے کے سلسلہ میں فرمایا : یقینا انہوں نے لقب باقرالعلوم کو اپنے آپ سے مخصوص کیا ہے کیونکہ آپ نے مختلف علوم کو واضح کیا ہے اور تمام علوم جیسے تفسیر، عقاید، فقہ اور اخلاق میں اسلامی نظریات کو بیان کیا ہے اور آپ نے اس سلسلہ میں اس قدر احادیث بیان کی ہیں کہ فقط محمد بن مسلم نے تیس ہزار حدیث ، امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہیں (٢) ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی عظیم میراث، اسلامی علوم کی وضاحت
شیعوں کے عظیم الشان مرجع تقلید نے ائمہ علیہم السلام خصوصا امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل شدہ احادیث کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : افسوس کہ بہت سی احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کا ذخیرہ تھیں ، ہم تک نہیں پہنچی ہیں ، اگرچہ ان احادیث کو جمع کرنے میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی تھی (٣) ، لیکن شیعوں کی اکثر احادیث جن کی تعداددسیوں ہزار سے زیادہ ہے ، فقط پانچویں اور چھٹے امام یعنی محمد بن علی الباقر اور جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک حصہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں راہنما ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے تھے جب دشمنوں کا فشار بہت کم تھا اور بنی امیہ و بنی عباس آپس میں جنگ کر رہے تھے ، جس کی وجہ سے ان تینوں اماموں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث کو اپنے آبائو اجداد سے نقل کرکے ہم تک منتقل کی ہیں (٤) ۔
معظم لہ نے امام باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظیم تعلیمات کے متعلق اس طرح فرمایا : اس وقت فقہی، اصولی،تفسیری، عقایدی ، اخلاقی جس کتاب کا بھی مطالعہ کریں اس میں قال الباقر (علیہ السلام) اور قال الصادق (علیہ السلام) ملتا ہے اور ان دو راہنمائوں نے ہمیں اسلامی علوم کی عظیم میراث عطا کی ہے ۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 12 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔