تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1787
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 708444
امام محمد باقرؑ کی مختصر سیرتِ طیّبہ
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادتِ با سعادت پہلی رجب المرجب سنّ ۵۷ ھ کو یوم جمعہ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؑ کا اسم گرامی محمد رکھا گیا، ابو جعفر آپؑ کی کنیت اور آپؑ کے القاب بہت سے تھے جن میں باقرالعلوم سب سے زیادہ مشہور لقب ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو اس لقب سے اس لئے ملقّب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم و معارف اورحقائق احکام و حکمت و لطائف کے ایسے خزانے ظاہر فرما دئیے جو لوگوں پر ظاہر و عیاں نہ تھے، آپؑ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؑ والدہ ماجدہ اور والد گرامی دونوں کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ، حضرت علیؑ اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی جانب منسوب ہیں اس لئے کہ آپؑ کے والد محترم حضرت امام زین العابدین، جناب امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں اور والدہ ماجدہ کی جانب سے آپؑ امام حسنؑ کی جانب منسوب ہیں۔ حضرت امام محمد باقرؑ کی عظمت ہر ایک عام و خاص کی زبان پر تھی آپؑ کے زمانہ میں جب بھی ہاشمی، علوی اور فاطمی خاندان کی شرافت، عظمت، کرامت وغیرہ کی بات ہوتی تھی تو صرف آپؑ کو ہی مذکورہ تمام صفات کا وارث سمجھا جاتا تھا۔ آپؑ کی عظمت کے بارے میں بس اتنا کافی ہے کہ رسول اکرمؐ اپنے ایک صحابی (جناب جابر بن عبداللہ انصاری) کے ذریعہ آپؑ کو سلام کہا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنے صحابی سے فرمایا: اے جابر تم زندہ رہو گے اور میرے بیٹے محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالبؑ سے ملاقات کرو گے جن کا نام توریت میں "باقر" ہے اور اس وقت میرا سلام انہیں پہونچانا۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری کو خدا نے طولانی عمر عطا کی اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ ایک دن جناب جابر بن عبداللہ انصاری امام زین العابدینؑ کے گھر تشریف لائے اور گھر میں انہیں پایا جبکہ اس وقت امام محمد باقرؑ کا بچپنا تھا جناب جابر بن عبد اللہ انصاری نے ان سے کہا میرے پاس آؤ، امام محمد باقرؑ قریب آئے تو انہوں نے کہا تھوڑا آگے چل کے جاؤ امام محمد باقرؑ چلے جب واپس آئے تو جناب جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا: خدائے کعبہ کی قسم یہ بچہ پیغمبر اکرمؐ کی مکمل عکاسی کر رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے امام زین العابدینؑ سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے؟ امامؑ نے فرمایا: یہ میرے بیٹے محمدِ باقر ہیں جو میرے بعد امام ہوں گے۔ یہ سنتے ہی جناب جابر بن عبداللہ انصاری کھڑے ہو گئے اور امام محمد باقرؑ کے پاؤں کا بوسہ لینے کے بعد کہا:میں آپؑ پر قربان ہو جاؤں اے فرزند پیغمبرؐ، آپؑ کو پیغمبر اکرمؐ نے سلام بھیجا یہ سنتے ہی امام محمد باقرؑ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا: میرا سلام ہو میرے جد امجد پر جب تک زمین و آسمان قائم ہیں اور آپ پر بھی اے جابر کہ آپ نے ان کا سلام مجھے پہونچایا ہے۔ (امالی شیخ صدوق، ص۲۱۳، چاپ سنگی)
امام باقرؑ کا علم
امام محمد باقرؑ کی سیرت کا ایک پہلو آپؑ کے علم میں پوشیدہ ہے آپؑ کے علم کا سرچشمہ بھی دیگر ائمہ اطہارؑ کی طرح وحیِ پروردگار تھا لہذا آپؑ نے بھی بشری مکتب میں کہیں کچھ نہیں سیکھا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب جابر بن عبداللہ انصاری اپنی اس عمر میں بھی امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے کچھ سیکھ کر جاتے اور ہمیشہ عرض کیا کرتے تھے کہ اے باقر العلوم میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ بچپنے میں ہی خدائی علم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ( علل الشرایع شیخ صدوق، ج۱، ص۲۲۲، چاپ قم)۔
عبداللہ بن عطاء مکی کہتے ہیں: میں نے کسی کے نزدیک دانشوروں و شاگردوں کو اتنا حقیر نہیں پایا جتنا امام محمد باقرؑ کے نزدیک پایا۔ حکم بن عتَیبہ امام محمد باقرؑ کی خدمت میں ایک چھوٹے بچہ کی طرح علم و دانش کے حصول کے لئے آتے تھے جبکہ وہ اپنے زمانے میں لوگوں کے نزدیک بہت بڑی علمی شخصیت کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ ( ارشاد شیخ مفید، ص۲۴۶، چاپ آخوندی)۔ امام محمد باقرؑ کی علمی شخصیت کی حقیقت یہ ہے کہ جابر بن یزید جعفی جب آپؑ سے کوئی روایت نقل کرتے تو کہا کرتے کہ وصیّ اوصیاء، وارث علوم انبیاء محمد بن علی بن علی بن الحسینؑ سے میں نے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( ارشاد شیخ مفید، ص۲۴۶، چاپ آخوندی)
امام رضاؑ کی اخلاقی و سیاسی زندگی
ولادت
آفتابِ امامت جس افق سے بھی طلوع کرے اس کی کرنیں دیکھنے کے لئے آنکھوں میں تاب نہیں ہے اس کی تمازت حیات بخش ہے۔ گیارہ ذیقعدہ سن ۱۴۸ ھجری قمری مدینہ میں امام موسی بن جعفر علیھما السلام کے گھر ایک بچہ کی ولادت ہوئی جو اپنے بابا کے بعد ایمان، علم و امامت وغیرہ میں اپنی مثال آپ تھا جن کا نام علی رکھا گیا اور رضا کے لقب سے مشھور ہوئے۔
زمانہ
آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سن ۱۸۳ھجری قمری میں امام کاظم علیہ السلام کی شھادت کے بعد، پینتیس سالہ زندگی میں خدائی منصب یعنی امامت پر فائز ہوئے اور پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی اس زمانہ میں عباسی خلافت اپنے عروج پر تھی اور وہ علوی قیام سے محفوظ رہنے نیز شیعانِ حیدر کرار کے قلوب کو اپنی جانب مجذوب کرنے کی خاطر کوشان تھی کہ اس خاندان کے ساتھ ظاھری طور پر گہرے تعلقات قائم کرے اور اس طریقہ سے اپنی خلافت کے جواز پر مہر تصدیق لگانے میں کامیاب ہو پائے۔
علم و آگہی
ہمارے ائمۂ اطہار مقام عصمت و امامت نیز امامت کے تقاضہ کے مطابق علم و حکمت کے اعتبار سے اپنے زمانہ کے تمام افراد سے زیادہ آگاہ و عالم تھے اسی بنا پر ہمارے آٹھویں امام نے اپنے بابا کی شھادت کے بعد ہارون کی حکومت میں بے جھجک تبلیغ دین و امامت میں مشغول رہے جیسا کہ آپؑ کے بعض چاہنے والے خطرہ محسوس کرنے لگے لیکن آپؑ واضح طور پر بیان فرماتے کہ جس طرح ابو جھل نے پوری کوشش کی لیکن وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بال بھی ٹیڑھا نہیں کر سکا اسی طرح ہارون بھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہونچا پائے گا۔
امام رضاؑ کی بعض خصوصیات
ابراہیم بن عباس کہتے ہیں: ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام نے گفتگو کرتے وقت کسی پر جور و ستم کیا ہو نیز ہم نے یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ دوسرے کی گفتگو ختم ہونے سے پہلے امامؑ نے اپنی بات کا آغاز کیا ہو۔ وہ ہر گز کسی محتاج کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے، نیکو کاری میں ہمیشہ سبقت لیتے اور مخفیانہ انفاق کرتے راتوں کی تاریکی میں فقراء کی مدد فرماتے ایک معمولی سے گھر میں سکونت پذیر تھے لیکن جب وہ باہر تشریف لے جاتے تو خود کو آراستہ کرتے ہوئے صاف ستھرا لباس پہن کر نکلتے تھے۔
نزول اور شناخت قرآن
تحریر: سید عابد حسین
This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ
الم (1) ذلِكَ الْكِتابُ لا رَيْبَ فيهِ هُدىً لِلْمُتَّقينَ (2)
قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کا امکان نہیں اور یہ کتاب تحریف سے بھی پاک ہے۔ اس عظیم کتاب کو خدا نے بشریت کی هدایت کے لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا۔هر چیز کی بهار هوتی هے قرآن کی بهار ماه مبارک رمضان هے۔ اسی مبارک مهینے میں قرآن مجید شب قدر کی رات نازل ہوا۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَ الْفُرْقانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَ مَنْ كانَ مَريضاً أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لا يُريدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سوره بقره 185) اِنَّا أَنْزَلْناهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ (سوره قدر1)
روایات میں تاکید هوئی هے که شب قدر رمضان مبارک کے آخری عشره کی راتوں میں سے ایک رات هے. مجمع البیان میں ابی بکر س روایت نقل کیے هی که شب قدر کو آخری عشره میں تلاش کرے اس مهینے میں زیاده سے زیاده قرآن مجید کی تلاوت کی تاکید کی گئی هے ۔یهاں ایک سوال ذهنون میں آجاتا هے که آیا اس کتاب کو 23 سال کے عرصے میں نازل نهیں کیا گیا ؟ پس کیسے شب قدر کی ایک رات میں نازل هوئی ؟اس حوالے سے تفاسیر کی کتابوں کا مطالعه کرے تو معلوم هو جاتا هے که قرآن کریم دو طریقوں نازل هوا هے)نزول تدریجی و نزول دفعی یعنی لوح محفوط سے بيتالمعمور په( اس کی طرف اشاره خود قرآن کریم میں ملتا هے که ایک دفعه تنزیل کا لفظ استعمال هوا هے ایک دفعه انزال کا لفط استعمال هوا هے ۔تنزیل نزول تدریجی کو کها جاتا هے اور انزال نزول دفعی کو کها جاتا هے۔ دونوں الفاظ کی طرف قرآن کریم میں اشاره هوا هے۔ مفسرین کے درمیان زیاده تر بحث نزول دفعی کے حوالے سے هے, علامه طباطبائی تفسیر المیزان میں فرماتے هیں: قرآن حامل دو وجود هے وجود ظاهری و وجود باطنی که بغیر کسی تجزیه,الفاظ اور تفصیل سے تها جو یکدفعه شب قدر کی رات قلب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل هوا اور وجود ظاهری به تدریج 23 سال کے عرصے میں نازل هوا۔جو قرآن آجکل همارے هاتھوں میں هے یہ وہی کلام اللہ ہے جس میں کسی قسم کی تحریف نهیں هوئی هے۔ بحیثیت مسلمان همارا اعتقاد هے کہ قرآن کریم ميں کسی صورت بھی تحربف ممکن نهیں هے۔ شہید مرتضی مطہری کتاب آشنائی با قرآن میں لکھتے ہیں: اگر ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرے تو تین بنیادی چیزیں اور تین اصولوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں :
پہلا اصل: انتساب ہے یعنی بغیر کسی شک و شبہ کے جو آج کل قرآن مجید کے نام سے تلاوت ہوتی ہے عین وہی کتاب اللہ ہے جو پرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور بشریت کیلئے پیش کئے ہیں۔ اس کی گواهی اسی کتاب میں موجود هے۔
)علمائے شیعہ اس بات پہ اجماع رکھتے ھیں قرآن
میں تحریف نھی ھوئی ھے کچھ ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر شیعوں پہ تحریف قرآن
کے قائل ھونے کا الزام اور تھمت لگانا قابل قبول نھی قرآن خود تحریف نہ ھونے کی
گواہی دے رھا ھے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون(
دوسرا اصل: اس کے مطالب ہیں یعنی قرآن کہیں سے لیا نہیں بلکہ جدید مطالب بیان کرتے ہیں۔
تیسرا اصل: بنیاد قرآن کا الہٰی هونا ہے یعنی معارف قرآن ماورائے ذہن بشریت ہے جس سے فکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فیض پہنچاتے رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف حامل وحی پروردگار تھے۔ آپ صلی علیہ و آلہ وسلم نے قرآن کو ایجاد نہیں کیا بلکہ توسط روح القدس یا جبرائیل علیہ السلام پروردگار کی اذن سے آپ کو عطا کیا گیا۔ اس میں تمام بشریت کے لئے هدایت موجود هے۔ تاریکی سے روشنی کی طرف رهنمائی کرتا هے قرآن اپنی تعریف میں کہتا ہے کہ قرآن نازل ہو ہے کہ لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لے جانے کے لئے۔
عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
روی عن القاضی نور اللہ عن الصادق علیہ السلام :
ان اللہ حرما و ھو مکہ الا ان رسول اللہ حرما و ھو المدینۃ اٴلا و ان لامیر الموٴمنین علیہ السلام حرما و ھو الکوفہ الا و ان قم الکوفۃ الصغیرۃ اٴلا ان للجنۃ ثمانیہ ابواب ثلاثہ منہا الی قم تقبض فیہا امراٴۃ من ولدی اسمہا فاطمۃ بنت موسی علیہا السلام و تدخل بشفاعتہا شیعتی الجنۃ باجمعہم ۔
امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا: ""خداوند عالم حرم رکھتا ہے اور اس کا حرم مکہ ہے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ) حرم رکھتے ہیں اور ان کا حرم مدینہ ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام حرم رکھتے ہیں اور ان کا حرم کوفہ ہے۔ قم ایک کوفہ صغیر ہےجنت کے آٹھ دروازوں میں سے تین قم کی جانب کھلتے ہیں ، پھر امام علیہ السلام نے فرمایا :میری اولاد میں سے ایک عورت جس کی شہادت قم میں ہوگی اور اس کا نام فاطمہ بنت موسیٰ ہوگا اور اس کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔۔
قال الصادق علیہ السلام من زارھا عارفا بحقہا فلہ الجنۃ
امام صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں کہ جس نے معصومہ علیہا السلام کی زیارت اس کی شان ومنزلت سے آگاہی رکھنے کے بعد کی وہ جنت میں جا ئے گا
اٴلا ان حرمی و حرم ولدی بعدی قم
امام صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں آگاہ ہو جاوٴ میرا اور میرے بیٹوں کا حرم میرے بعد قم ہے ۔
حضرت معصومہ علیہا السلام امام رضاعلیہ السلام کی نظر میں
عن سعد عن الرضا علیہ السلام قال : یا سعد من زارھا فلہ الجنۃ ۔
ثواب الاٴعمال و عیون اخبار الرضا علیہ السلام: عن سعد بن سعد قال : ساٴلت ابا الحسن الرضا علیہ السلام عن فاطمۃ بنت موسی بن جعفر علیہا السلام فقال : من زارھا فلہ الجنۃ
سعد امام رضاعلیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے سعد جس نے حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کی اس پر جنت واجب ہے ۔
”ثواب الاعمال“ اور ”عیون الرضا “ میں سعد بن سعد سے نقل ہے کہ میں نے امام رضاعلیہ السلام سے سیدہ معصومہ علیہا السلام کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کا صلہ بہشت ہے
کامل الزیارۃ : عن ابن الرضا علیہ السلام قال: من زار قبر عمتی بقم فلہ الجنۃ
امام جوادعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس نے میری پھوپھی کی زیارت قم میں کی اس کے لئے جنت ہے
حضرت معصومہ علیہا السلام کا مقام و منزلت
اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ معصومہ علیہا السلام کو معصومہ کا لقب کس نے دیا؟
معصومہ کا لقب حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنی بہن کو عطا کیا۔ آپ اس طرح فرماتے ہیں:
من زار المعصومۃ (سلام اللہ علیہا)بقم کمن زارنی
جس نے معصومہ علیہا السلام کی زیارت قم میں کی وہ اس طرح ہے کہ اس نے میری زیارت کی
اب جب کہ یہ لقب امام معصوم علیہ السلام نے آپ کو عطا فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ان کی ہم رتبہ ہیں ۔
امام رضاعلیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ وہ شخص جو میری زیارت پر نہیں آسکتا وہ میرے بھائی کی زیارت شہرری میں اور میری بہن کی زیارت قم میں کرے تووہ میری زیارت کا ثواب حاصل کرلے گا
عالمی یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا خطاب
بسم الله الرحمن الرحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدین
ساری دنیا کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں، اللہ تعالی سے مبارک مہینے رمضان میں ان کی عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں، عید سعید فطر کی انھیں پیشگی مبارکباد دیتا ہوں اور ضیافت خداوندی کے اس مہینے میں موجود رہنے کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
آج یوم قدس ہے۔ وہ دن جو امام خمینی کی جدت عمل سے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے بارے میں مسلمانوں کی آوازوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ بن گیا۔ ان چند عشروں میں اس سلسلے میں اس کا بنیادی کردار رہا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ اقوام نے یوم قدس کا خیر مقدم کیا اور اسے اولین ترجیح یعنی فلسطین کی آزادی کا پرچم بلند رکھنے کے مشن کے طور پر منایا۔ استکبار اور صیہونیت کی بنیادی پالیسی مسلمان معاشروں کے اذہان میں مسئلہ فلسطین کو بے رنگ کر دینا اور فراموشی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ سب کا فوری فریضہ اس خیانت کا سد باب ہے جو خود اسلامی ممالک میں دشمن کے سیاسی اور ثقافتی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا قضیہ نہیں ہے جسے مسلمان اقوام کی غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات مملکت فلسطین کے غصب کر لئے جانے اور وہاں صیہونیت کا کینسر وجود میں آنے کے بڑے المئے کی یادہانی کرانا ہے۔ ماضی قریب کے ادوار کے انسانی جرائم میں اس پیمانے اور اس شدت کا کوئی اور جرم رونما نہیں ہوا۔ ایک ملک کو غصب کر لینا اور عوام الناس کو ہمیشہ کے لئے ان کے گھربار اور موروثی سرزمین سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل و جرائم، کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی کی المناک ترین شکل میں اور دسیوں سال تک اس تاریخی ستم کا تسلسل، حقیقت میں انسان کی درندگی اور شیطانی خو کا نیا ریکارڈ ہے۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 12 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔