تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1787
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 708466
ماہ شعبان کی فضیلت اور اس کے اعمال
شعبان وہ عظیم مہینہ ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے ۔ حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاند نموردارہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدربزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں اپنے والدگرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔
شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزے رکھنے پر آمادہ کرو! میں نے عرض کیا، اس کی فضیلت کیا ہے؟ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :
” اے اہل مدینہ ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی روزہ رکھے۔“
صفوان کہتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی ہے، اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہ ہوگا۔ نیز فرمایا کہ شعبان ورمضان دومہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔
اسماعیل بن عبدالخالق سے روایت ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا جب کہ روزہ شعبان کا ذکر ہوا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا: ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔
ماہ شعبان کی فضیلت اور اس کے اعمال
معلوم ہونا چاہئے کہ شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول ﷺسے منسوب ہے حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔امام جعفر صادق (ع)فرماتے ہیں کہ جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین(ع) تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول الله ﷺفرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین(ع) کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی (ع)سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین (ع)سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاوٴں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟آپ(ع) نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول الله ﷺجب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :اے اہل مدینہ! میں رسول خدا ﷺکا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔ صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق (ع)کا ارشاد ہے کہ امیر المؤمنین(ع) فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی اسکے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق (ع)کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزہٴ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے حتی کہ نا حق خون بہانے والے کو بھی ان روزوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور بخشا جا سکتا ہے۔
ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال
واضح رہے کہ ماہ رجب , شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور بلندی کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد (ص)کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت وفضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میں کافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔نیز یہ کہ رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میں ایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میں ایک روزہ رکنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میں ایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصب بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں میری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میں بہ کثرت ی کہا کرو:
استغفرواللہ واسئلہ التوبۃ
” میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں“ ابن بابویہ میں نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اواخر رجب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میں روزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسول ! واللہ نہیں! تب فرمایا کہتم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوں سے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اسمیں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میں نے عرض کیا اے فرزند رسول! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟ آپ نے فرمایا: اے سالم!
آگاہ رہو کہ جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اس کی موت کی سختیوں اور بعداز موت کی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے بہ آسانی گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت
فاطمہ الزہراء (س)اسوہء کاملہ
حضرت زہراء (س)کو بعنوانِ اسوہ اور وہ بھی اسوۂ کاملہ پیش کرنا اقبال کی فراست
و بصیرت کی علامت ہے یعنی اقبال کی دید حضرت زہراء (س)کی شخصیت کی طرف اسوائیت کی دید ہے۔ پیروانِ دین اسلام و پیروانِ امامت وولایت کی جانب سے انبیاء کرام ومعصومین (ع) اور دیگر ذواتِ مقدسہ کی اسوائیت والا پہلو اکثر
موردِ غفلت واقع ہوتا ہے حالانکہ قرآن اور دین اسلام نے اُنہیں بعنوانِ اسوہ پیش کیا ہے جبکہ اس پہلو کو چھوڑ دیاجاتا ہے اور اس کے بجائے دوسرے پہلوئوں کو زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔
معصومین (ع) کی زندگیوں کے دوسرے پہلوئوں سے بھی ہر مسلمان اور مومن کو آشنائی ہونی چاہیے لیکن کسی معصوم کی زندگی سے اگر مومن کی زندگی میں کچھ منتقل ہوسکتا ہے تو وہ بابِ اسوہ اور سیرت ہے جب تک معصوم کی زندگیوں کا مطالعہ بعنوانِ اسوہ نہ کیاجائے اس وقت تک فقط معصومین (ع) کی مدح وثناء کرنے سے، تحقیقاتِ علمی انجام دینے سے یا تاریخی معلومات اکٹھی کرکے اپنا اظہارِ عقیدت بارگاہِ معصومین میں پیش کرنے سے معصوم کی ذات سے کچھ بھی اس ذات میں منتقل نہیں ہوگا۔ چونکہ اہل ایمان کا عقیدہ ہے بلکہ تمام مسلمین کا بھی یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام اور آئمہ اطہار (ع) کا واسطہ فیض قراردیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاہری اور معنوی اُنہی ہستیوں کے توسط سے خداوند تبارک وتعالیٰ نے مخلوق تک پہنچائے ہیں کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں ان کی ذات سے مخلوق تک جو فیض پہنچتے ہیں ان میں سے ہدایت، معرفت اور علم ہے جو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ اگر مومن اور مسلمان اس دید سے انبیاء وآئمہ(ع) کو نہ دیکھے تو انبیاء اور آئمہ اس کیلئے واسطۂ فیض و ہدایت کی حیثیت نہیں رکھتے۔
بابِ اسوائیت اور بابِ سیرت
قرآن مجید میں رسول اللہ (ص) کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے ''لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة'' حَسَنَة''''(سورہ احزاب، آیت ٢١)حضرت
ابراہیم کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا اور جن انبیاء کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے ان کیلئے اگرچہ اسوہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن وہ بھی اسوہ ہی کے طور پر پیش کئے گئے ہیں یعنی ان کی زندگی کی حکایت اور ان کے قصص اسوہ کے طور پر پیش کئے گئے ہیں جیسے حضرت موسیٰ کیلئے اسوہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن حضرت موسیٰ کو بھی خداوند تبارک وتعالیٰ نے مخاطبین قرآن کیلئے اسوہ کے طور پر پیس کیا ہے ورنہ قرآن میں حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کاتذکرہ نہ آتا اور نہ ہی دیگر انبیاء (ع) کا تذکرہ آتا۔ اسی
طرح سے آئمہ اطہار بھی بشریت کیلئے اسوہ ہیں لیکن اگر اسوہ کا عنوان مدّ
نظر نہ ہو تو مومن اور امام کا آپس میں ایک عقیدتی تعلق ہونے کے باوجود
ہدایت منتقل نہیں ہوتی۔ امام کی طرف سے اُمت کیلئے جو باب کھولا گیا ہے وہ
بابِ سیرت ہے یعنی امام یا نبی خداوند تبارک وتعالیٰ کی جانب سے ہدایت
انسان کیلئے مبعوث ہوتے ہیں حالانکہ ان کو معاشرے کے اندر اور بھی فراوان
مسائل نظر آتے تھے، لوگوں کے حسب ونسب کا باب بھی کھول سکتے تھے، علومِ بشری جو انسان نے علمی ترقی کے ذریعے کشف کئے ہیں ان علوم کا باب بھی انسان کے سامنے کھول سکتے تھے اور وہ چیزیں جو لوگوں کے اندر پہلے سے رائج تھیں ان میں بھی معصومین دلچسپی لے کر اُنہیں مزید پھیلا سکتے تھے لیکن آئمہ وانبیاء کو خدائے تعالیٰ نے اُمت کے اندر ایک نیا باب کھولنے کیلئے منصوب کیا وہ نیا باب اُمت کے اندر بابِ ہدایت ہے کہ اور دیگر مسائل چونکہ آئمہ
اور انبیاء کی بعثت کے محتاج نہیں ہیں اس لئے اس عنوان سے ان کو مبعوث بھی
نہیں کیا۔ اُمت نے بھی معصومین کی نسبت جس باب کو کھلونا ہے وہ بابِ سیرت
ہے۔
سیرت کا بند دروازہ بعض دروازے دشمنوں نے بند کرنے کی کوشش کی ہے اور کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ دروازے بند ہوجائیں جیسے بابِ ولایت یا بابِ حکومت ہے اور اپنی ان کوششوں اور کاوشوں میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں لیکن معصومین(ع) کی سیرت کا باب پیروکاروں نے خود بند کردیا ہے، یا توجہالت ونادانی کی وجہ سے یا دیگر اسباب کی بناء پر حالانکہ خدائے تعالیٰ نے بابِ سیرت اس لئے کھولا تھا کہ ان ہستیوں کو عنوانِ اسوہ قبول کیاجائے کیونکہ اسوہ کی نگاہ سے دیکھنے میں اور دیگر نگاہوں سے دیکھنے میں مثلاً فقط عقدیتی نگاہ سے دیکھنے میں بڑا فرق ہے، جب تک ہم اسوہ کی نگاہ سے اُنہیں نہیں دیکھتے اس وقت تک ایک رہبر، امام اور پیشوا، اُمت کی زندگی میں حضور پیدا نہیں کرسکتا حالانکہ امام کا اُمت کے اندر حضور بہت ضروری ہے۔ حضورِ رہبر سے مراد رہبرانہ حضور ہے یعنی بعنوانِ راہنما ان کی ہدایت اُمت کے اندر موجود ہو کہ جس کی اُمت محتاج ہے۔ ایسی امامت ورہبری اُمت کے کسی کام نہیں آتی جس میں امام اور رہبر، رہبری سے محروم ہو۔ یہ اُمت کو کوشش کرنی ہے، بعض اُمتوں نے ایسا رویہ اپنایا کہ اگرچہ جسمانی طور پر امام ان کے اندر تھے لیکن اُمت کے رویوں نے حضورِ رہبر اُمت کے درمیان ختم کردیا یعنی رہبر کو گوشہ نشین کردیا اور رابطہ ہدایت اس امام کے ساتھ برقرار نہیں کیا۔
مثلاً امیرالمومنین(ع) جسمانی طور پر اُمت کے اندر موجود ہیں لیکن اُمت کا رویہ اپنے امام کے ساتھ اس طرح ہے کہ اُمت نے امام کو بعنوانِ امام و رہبر قبول نہیں کیا یعنی اُمت نے رہبر کو اپنے درمیان سے نکال دیا یا یوں کہیں کہ اُمت نے رہبر وامام کو جلا وطن کردیا اور اپنے درمیان میں سے اس کا حضور ختم کردیا اور بلا امامت امام زندگی گزارنے کو ترجیح دی جس سے بہت برے نتائج سامنے آئے جو آج تک اُمت کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
نبوت و امامت کا حضور
اس طرح سے اُمت کا یہ کام ہے کہ وہ امامت اور رہبریت کو اپنے رویہ اور عمل کے ذریعے اپنے اندر حاضر رکھے۔ ممکن ہے امام زندہ اور موجود ہوں اور اُمت میں حاضر ہوں لیکن اُمت ہدایت لینے کی توفیق پیدا نہ کرسکے اور ممکن ہے امام جسمانی طور پر اُمت کے اندر نہ ہوں بلکہ غائب ہوں جس طرح سے زمانۂ غیبت کی وجہ سے جو جسمانی طور پر اُمت میں موجود نہیں ہیں تو اُمت کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس نبی یا اس امام کی امامت ورہبری وہدایت کو اپنے اندر حاضر رکھے بالفاظِ دیگر امام یا نبی کو اپنے اندر حاضر رکھے۔ آج مسلمانوں کے اندر نبی نہیں ہیں، بغیر نبوت کے زندگی بسرکررہے ہیں۔ ختم نبوت کا درحقیقت دقیق فلسفہ یہ ہے کہ پہلے خدا نے نبیوں کے حضورکا سلسلہ اپنے ذمے رکھا ہوا تھا یعنی اُمت کے اندر نبی کاحضور خدا کے ذمے تھا، خدا نے ہر اُمت کے اندر نبی کو حاضر رکھنا تھا لیکن ختم نبوت کے معانی یہ نہیں ہیں کہ یہ ذمہ داری خدا نے اب اُمت کو سونپ دی ہے کہ اب تمہیں نبی کو اپنے اندر حاضر رکھنا ہے۔
ممکن ہے امام یا نبی اُمت کے اندر جسمانی طور پر موجود ہوں لیکن اُمت بصیرت نہ رکھتی ہو اس کی بہت سی مثالیں ہیں؛ جیسے حضرت نوح اُمت کے اندر خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے لیکن اُمت نوح کے ہوتے ہوئے بغیر نوح کے زندگی بسر کر رہی تھی یا اسی طرح سے حضرت لوط کے زمانہ میں اُمت بغیر لوط کے زندگی بسر کررہی تھی حالانکہ لوط موجود تھے۔ یعنی حضرت لوط کو بعنوانِ رہبر قبول نہیں کیا اس حیثیت سے رہبرانہ حضور محقّق نہیں ہونے دیاگیا اسی طرح دیگر انبیاء بھی ہیں کہ اُمتوں نے ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کردیں اور یہی عمل مسلمانوں کے اندر بھی تکرار ہوا۔
پیغمبراکرم (ص) کے بعد اُمت نے جو رویہ اپنایا اس کے نتیجے میں اُمت نے امیرالمومنین(ع) کو عنوانِ امام اپنے اندر حاضر ہونے نہیں دیا۔ اس حضور کی راہ میں اُمت کی جہالت، نادانی، سفاہت رکاوٹ بنی اور اسی طرح سے یہ سلسلہ غیبتِ امام تک جاری رہا اگرچہ امام خود جسمانی طور پر اُمت کے اندر موجود تھے، اُمت وجودِ امام یا حضورِ امام کو محسوس نہیں کررہی تھی، امام کو بعنوانِ امام قبول کرنا نہیں چاہتی تھی۔
یہی حالت ہمیں آج نظر آتی ہے کہ آئمہ اطہار وانبیائے کرام اُمت کے اندر آج بھی حاضر ہیں لیکن مقدس ہستیوں، شخصیات کے طور پر اور ایسی ہستیوں کے طور پر جن کے متعلق انسان احساسات اور عقیدت ومحبت رکھتے ہیں، امام ان عناوین سے اُمت کے اندر حاضر ہیں لیکن اسوہ کے طور پر حاضر نہیں ہیں یعنی اُمت چاہتی ہی نہیں کہ امام اسوہ بن کر ان کے اندر حاضر ہوں یہ اُمت کا عمل ہے اس کو ہم معمولی مثال میں بھی لحاظ کرسکتے ہیں مثلاً آج کی شخصیات جو زندہ ہیں ان کا حضور اُمت کے اختیار میں ہے، مثلاً فرض کریں کہ ایک بہت علمی شخصیت مجتہد ہے لیکن بعنوانِ مرجع، عوام اور اُمت کے اندر متعارف نہیں ہے، یہ شخصیت اسی اُمت وقبیلے کا ہے اُنہی کا بیٹا یا بھائی ہے اور اسی قوم سے ہے جسمانی طور پر بعنوانِ فرزند قوم حاضرہے یا ایک عالم کے طور پر ان کے اندر حاضر ہے لیکن ایک مرجع کے طور پر حاضر نہیں ہے اور مرجع کے طور پر کیوں حاضر نہیں ہے چونکہ اُمت نے اس کو مرجع کے طور پرقبول نہیں کیا لہٰذا اس کا مجتہدانہ حضور نہیں ہے یا ایک عالمِ دین کسی علاقے میں موجود ہے وہ ان کے ہر کام میں شریک ہے ویلفیئر کاکام کرتا ہے، رفاہی کام بھی کرتا ہے اور ہر قسم کی فعالیت میں شریک ہے لیکن بعنوانِ مبلّغ وہاں اس کی کوئی کارکردگی وسرگرمی نہیں ہے، یہ شخص بہت سارے عناوین کے تحت اُمت کے اندر حاضر ہے لیکن مبلّغ کے طور پر حاضر نہیں ہے، بعنوانِ مبلّغ اُمت کے اندر سے غائب ہے، خواہ نخواہ اس غیبت کے بھی اثرات پڑتے ہیں جس اُمت سے رہبر اور اسوہ غائب ہو اورجس اُمت سے رول ماڈل غائب ہو وہ اُمت اسوہ کے اثرات یا حکمت وہدایت سے محروم ہوجاتی ہے، حالانکہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے اسی ہدایت کیلئے اُنہیں اسوہ بنا کر بھیجا تھا۔
اقبال کی عالمی بصیرت
اقبال پر خداوند تبارک وتعالیٰ نے یہ لطف کیا ہے کہ اُنہیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے یہ بصیرتیں خدا نے سب کیلئے رکھی ہوئی ہیں لیکن دیتا خدا اُن کو ہے جو اس کے قدردان ہوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیاوی چھوٹے اور گھٹیااُمور میں صرف کردیں خداتعالیٰ بصیرتِ برتر ان کو نہیں دیتا لیکن جو اپنے اندر اس
گوہر کے قدردان ہوتے ہیں، خدا اُنہیں بصیرتِ برتر و بصیرتِ عظیم عطا کرتا
ہے۔
تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔
عام لوگ وہی معمولی بصیرت کے لوگ ہوتے ہیں علماء میں بھی اکثریت معمولی
بصیرت کے حامل لوگ ہیں۔ صاحبانِ بصیرتِ برتر اور خواص کے اندر بھی بہت کم
اور انگشت شمار ہیں اور ان میں سے ایک اقبال ہیں۔ اقبال کی یہ نظم جو انہوں
نے حضرت سیدہ (س) کی بارگاہ میں بعنوانِ ہدیہ عقیدت پیش کی ہے جس کا عنوان ہی ان کی عالی بصیرت کی دلیل ہے، اوروہ عنوان یہ ہے :
''در معنیٰ این کہ سیدة نساء فاطمہ الزہرا سلام اﷲ علیھا اسوہ کاملہ است برائے نساء اسلام''
اقبال کے نزدیک حضرت زہراء (س) اسوہ ہیں اور کامل اسوہ ہیں، یعنی کیا؟ یعنی
اقبال چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ(س) کو اُمت کے اندر حاضر کریں، اسوہ یعنی
اُمت میں حضرت زہراء (س) کا حضور! یہ حضور اس حضور سے مختلف ہے جو
معتقدین، محبّین، مدّاحین اورذاکرین پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ
ہماری مجلس ہورہی ہے اور بی بی آئی ہوئی ہیں یہ حضور کہاں؟ اور وہ حضور جو
اقبال چاہ رہے ہیں وہ کہاں؟
حضور حضرت فاطمہ(س) اُمت میں
اقبال جس نقطے سے حضرت زہراء (س) کا حضورِ اُمت چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اُمت خود حضرت فاطمہ الزہراء (س)کو اپنے لئے اسوہ بنائے اور جب تک اُمت اسوائیت کی دید سے حضرت زہراء (س)کو نہیں دیکھتی حق زہرا کسی سے بھی ادا نہیں ہوگا۔
بے شک مدحِ زہراء (س) میں شعر کہیں، مثنویاں کہیں اور اولادِ حضرت زہرا ء
کیلئے آنسو بہائیں، جو مرضی ہے کریں لیکن جب تک لوگ حضرت زہراء (س)کو
ہدایت کے عملی اسوہ کے طور پر اپنی زندگیوں میں نہیں لاتے، اپنے معاشرے میں نہیں لاتے اس وقت تک حق زہرا ادا نہیں ہوتا، اس وقت تک حق خدا بھی ادا
نہیں ہوتا، یہ جو خدا نے فرمایا:
''وماقدرواﷲحق قدرہ'' تم لوگوں نے خدا کی قدر نہیں جانی۔ خدا کی قدر جاننے سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم نے یااللہ یااللہ تھوڑا کہا ہے بلکہ تھوڑا اور اضافہ کردو، ذکر وورد بڑھا دو، نہ، تم نے خدا کی قدر ہی نہیں جانی یہ تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کیا ہے اور خدا نے تمہارے لئے کیا کیا ہے؟ اور تمہیں کس دید اوربصیرت سے خدا کودیکھنا چاہیے؟ مثلاً فرض کریں کہ ایک عالم فاضل دانشور انسان کسی اُمت کے اندر جاتا ہے اور وہ اس کو خوب کھانا کھلاتے ہیں، خوب آئو بھگت کرتے ہیں اس کو ہدیہ وتحفے دیتے ہیں لیکن اس کے علم سے استفادہ نہیں کرتے تو وہاں یہ جملہ صدق کرتا ہے کہ انہوں نے اس کی قدر نہیں جانی۔ اگرچہ اس کو بہت زیادہ احترام بھی دیا لیکن اس کی قدر نہیں جانی، قدرِ عالم یعنی اس کے علم کی قدر، قدرِ امام یعنی اس کی امامت کی قدر ہے اور قدرِ اسوہ یعنی اس کی سیرت کی قدر کو کہتے ہیں لہٰذا جب تک زہرا ء (س) کو بعنوانِ سیرت نہیں اپنائیں گے حضرت زہراء (س) اُمت کے اندر حاضر نہیں ہوںگی۔ حضورِ زہراء (س) کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو بعنوانِ اسوہ اپنائیں تاکہ حوزوں میں حضرت زہراء (س)
موجود ہوں، گھروں میں حضرت زہراء (س) موجود ہوں، معاشرے میں حضرت زہراء (س) موجود ہوں، آداب ورسوم میں حضرت زہرا ء موجود ہوں اور وہ بھی اسوہ اور
رول ماڈل بن کر موجود ہوں، تب ہی کچھ نہ کچھ حق زہراء (س) ادا ہوجائے گا۔
ہیرو اور رول ماڈل میں فرق
ہیرو اور رول ماڈل میں یہی فرق ہوتا ہے، معصومین کو بھی ہیرو کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں۔ ہیرو اور قہرمان لوگوں کی زندگی میں نہیں ہوتا بلکہ فقط لوگوں
کے ذہنوں اور دلوں میں ہوتا ہے، اس سے محبت کی جاتی ہے اس کے سامنے اظہارِ عقیدت کیاجاتا ہے، گلہائے عقیدت اس کے سامنے نثار کئے جاتے ہیں چونکہ قہرمان اگر زندگیوں میں آجائے تو سب ہیرو بن جائیں گے، سب قہرمان ہوں گے حالانکہ قہرمان اور ہیرو سب نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے، اس وجہ سے قہرمان کبھی بھی کسی کی زندگی میں نہیں آتا لیکن ذہنوں اور دلوں میں آتا ہے
خدا نے معصومین وانبیاء کو قہرمان سے زیادہ اسوہ اور رول ماڈل بنا کر پیش کیا ہے کیونکہ رول ماڈل انسان کی زندگی کا محرم ہے۔ اس کو ان کی زندگیوں کے اندر جانا ہے ان کے جزئی ترین افعال واعمال کے اندر جانا ہے، قہرمان نہیں جاسکتا لہٰذا جتنے بھی قہرمان ہیں، مثلاً جو کردار انسان نے خود افسانوی طور پر بنائے ہیں یا یہ جو واقعاً تاریخ میں قہرمان گزرے ہیں ان کی ادا کوئی بھی نہیں اپناسکا، ان کی کوئی بھی تقلید نہیں کرسکا، ان کی راہ پر کوئی بھی نہیں چل سکا صرف ان کی ستائش کی ہے خواہ وہ افسانوی قہرمان ہوں یا واقعی۔ ہیرو قابل تقلید نہیں ہوتا لیکن اسوہ قابلِ تقلید ہوتا ہے اس لئے ان کو زندگی میں لانا ضروری ہے۔ اقبال اس نظم میں حضرت زہراء (س) کو زندگیوں میں لانا چاہتے ہیں۔
وفات حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور آپ کی زیارت کی فضیلت
دل جس کے شہر میں مدینے کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔ گویا مکہ میں صفا و مروہ کے درمیان دیدار یار کے لیے حاضر ہے ، عطر بہشت ہر زائر کے دل و جان کو شاداب و با نشاط کر دیتا ہے ۔ جس کے حرم میں ہمیشہ بہار ہے ۔ بہار قرآن و دعا ، بہار ذکر و صلوات ، شب قدر کی یادگار بہاریں ۔ دعا و آرزو کے گلدستے کی بہار جو تشنہ روحوں کو سیراب کر دیتی ہے ، ہر خستہ حال مسافر زیارت کے بعد تھکن سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔ ہر آنے والا شخص اس حرم میں قدم رکھنے کے بعد خود کو پردیسی اور بیگانہ محسوس نہیں کرتا۔
وہ ہستی کون ہے ؟ وہ کون ہے کہ جو مدینہ میں گمشدہ اپنی ماں زہرا (س) کی قبر کو ظاہر کیے بیٹھی ہے ؟ وہ کون ہے، جو زائرین کے لیے ماں کی طرح آغوش پھیلائے بیٹھی ہے ؟ وہ کون ہے کہ جسکا در زائرین کی گواہی کے مطابق، مشہد سے بھی زیادہ مانوس اور آشنا ہے ؟
اسے سب پہچانتے ہیں ۔ وہ سب کے دلوں میں آشنا ہے اگر اس کا حرم و گنبد اور گلدستے آنکھوں کو نور بخشتے ہیں تو اس کی محبت و عشق ، اس کی یادیں اور نام دلوں کو سکون بخشتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حرم ، حرم اہل بیت ہے ۔مدفن یادگار رسول ، نور چشم موسی بن جعفر (ع)، آئینہ نمائش عفت و پاکی، حضرت فاطمہ ثانی ہے۔
تاریخ دوسری فاطمہ کا انتظارکر رہی ہے . انتظار کی گھڑی گذر جاتی ہے اور خانہ خورشید بھینی بھینی خوشبو سے بھر جاتا ہے. فاطمہ کے حضور جدید کی ٹھنڈک مدینہ کی فضاؤں پر چھا جاتی ہے اور کوثر سیدہ، وہی چشمہ کوثر پھوٹنے لگتا ہے. میں آپ کی حرم کی باغوں میں پناہ لیتا ہوں اور قدری اس ملکوتی سائے میں سستا لیتا ہوں. نہر استجابت کی کنارے بیٹھ جاتا ہوں اور خود ایک قطرہ بن جاتا ہوں اور آپ کے زائرین کی اشکوں کے دریا کے شفاف پانیوں میں آپ کے ضریح مقدس کو عقیدت کے پھولوں کی مالا پہنا دیتا ہوں اور اس ضریح میں سے آپ کی قبر مطہر کا نظارہ کرتا ہوں. یقین نہیں آتا! کیا میں اتنی آسانی سے آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہؤا ہوں! جبکہ آپ کی زیارت کوثر مدینہ کی گمشدہ کی زیارت کے ہم رتبہ ہے.....
کریمۂ اہل بیت حضرت معصومہ (س) فرزندِ رسول حضرت امام موسی کاظم (ع) کی دختر گرامی اور حضرت امام رضا (ع) کی ہمشیرہ ہیں۔ آپ کا اصلی نام فاطمہ ہے۔ آپ اور امام رضا ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے ہيں، آپ کے مشہور نام خیزران، ام البنین اور نجمہ ہیں ۔ روایات کے مطابق حضرت فاطمۂ معصومہ یکم ذی العقدہ 173ھ ق کو مدینۂ منوّرہ میں پیدا ہوئيں، اور10ربیع الثانی 201 ہجری کو وفات پا گئیں ہے۔
حضرت فاطمۂ معصومہ (س) اہل بیت رسول کی اُن ہستیوں میں سے ہیں جو مقام عصمت کی حامل نہ ہوتے ہوئے بھی عظیم شخصیت کی مالک تھیں جیسے حضرت زینب کبری (س) اور حضرت ابو الفضل العبّاس (ع) تھے۔ آپ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہيں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نےآپ کے والد گرامی حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے قبل ہی آپ کے مدفن کی پیشنگوئی کرتے ہوئے آپ کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی تھی۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے اپنے ایک صحابی سے حضرت امام موسی بن جعفر (ع) کی طرف بچپن میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
یہ میرا بیٹا موسی ہے، خداوندِ عالم اس سے مجھے ایک بیٹی عطا کرے گا جس کا نام فاطمہ ہو گا ۔ وہ قم کی سرزمین میں دفن ہو گی اور جس نے قم میں اس کی زیارت کی، اس پر بہشت واجب ہو گی ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :
بہت جلد قم میں میری اولاد ميں سے ایک خاتون دفن ہو گی جس کا نام فاطمہ ہے اور جو اس کی قبر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہو گی۔ اس طرح کی احادیث و روایات حضرت معصومہ کے عظیم مقام و مرتبے کا بہترین ثبوت ہيں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبان سے زائر حضرت معصومہ کے لیے جنت کی بشارت اور وہ بھی وجوب کی حد تک بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
حضرت امام رضا (ع) کو چھوڑ کر، حضرت امام موسی کاظم (ع) کی اولاد ميں حضرت معصومہ ہی وہ ہستی ہیں جن کی فضیلت کے بارے میں آئمہ معصومین (ع) کی روایات ملتی ہيں ۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ آئمہ معصومین میں سب سے زيادہ اولاد حضرت امام موسی کاظم ہی کی تھیں۔ آپ کے برادر گرامی حضرت امام رضا (ع) سے روایت ہے :
جس نے ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 11 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔