تازه ترین عناوین
- آداب ماہ محرم الحرام
- مباہلہ اہلبیت علیہم السلام کی شان اور ناصبیوں کی بے بسی
- غدیر کی اہمیت
- حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کے فضائل و مناقب
- سوال و جواب » مستحب قربانی کے احکام
- حیوان کو زبح کرنے کے شرایط
- عظمت حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
- صلح امام حسن علیه السلام پر اجمالی نظر
- عبادت کرنے والوں کی تین اقسام
- اعمال كے مجسم ہونے اور اس كي حقيقت
- امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے القاب
- بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں
- رہبر انقلاب اسلامی نے امن و امان کے تحفظ کو اتنہائی اہم اور ملک کی اولین ترجیح قرار دیا
- قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب و مکروہ کے سلسلہ میں امرو نہی کی دلالت کیا ہے؟
- مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
- اتحاد و یکجہتی کی سب سے اہم ضرورت ہے،رہبر معظم
- فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے/ صیہونی، حزب اللہ سے پہلے سے کہیں زیادہ دہشت زدہ ہیں
- امریکہ کاغذ پر لکھتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات کئے جائیں لیکن عملی طور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے
- آرمی چیف نے کرپشن کے الزام میں13فوجی افسروں کو برطرف کردیا
- حضرت زینب سلام اللہ علیہا
آمار سایت
- مہمان
- 1787
- مضامین
- 472
- ویب روابط
- 6
- مضامین منظر کے معائنے
- 708482
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مھر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت س کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔ واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاو۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا: "ابوھا فداھا" یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔ 200 ھجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت س کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ س کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ھجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر "ساوہ" پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر "قم" کا رخ کریں۔ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔
اہل قم کی طرف سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا پرتپاک استقبال:
علامہ مجلسی رہ تاریخ قدیم [378 ھجری قمری میں بڑے دانشمند حسن بن محمد کی طرف سے لکھی گئی] سے نقل کرتے ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ساوہ آنے اور ان کے بیمار ہونے کی خبر آل سعد [عرب اشعری شیعہ خاندان] کو ملی تو انہوں نے ساوہ جانے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو اپنے ساتھ قم لانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں موسی بن خزرج بن سعد اشعری بھی موجود تھا۔ جب وہ ساوہ پہنچے تو موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے اونٹ کی مہار کو تھام لیا اور قم تک لے آیا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا تقریباً 16 یا 17 دن تک اس کے گھر میں رہیں اور پھر فوت ہو گئیں۔ چونکہ آپ کا روز شہادت 10 یا 12 ربیع الثانی ہے لہذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قم میں آپ 23 ربیع الاول 201 ھجری قمری کو داخل ہوئیں۔ قم کے اکثر لوگ اہل بیت س سے محبت کرنے والے تھے لہذا حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے یہاں آنے پر انتہائی خوش ہوئے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا جتنے دن زندہ رہیں اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی میں روتی رہیں۔ موسی بن خزرج کے گھر میں ایک جگہ عبادت کیلئے مخصوص تھی جہاں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا عبادت کیا کرتی تھیں۔ یہ جگہ آج بھی موجود ہے اور وہاں پر ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی رحلت اور کفن و دفن:
امامت و مہد ویت پر ایک طائرانہ نگاہ
قر آن مجید میں نسل آدم کے لئے دو اصطلاحین استعمال ہوئی ہیں ایک بشر کی اصطلاح اور دوسری انسان کی اصطلاح بشری طور پر اولاد آدم کا ہر فرد دیگر حیوانات کی طرح ہی حرکت کرتا ہے۔ سانس لیتا ہے۔خوراک ہضم کرتا ہے اور افزائش نسل کرتا ہے یعنی نوع اعتبار سے ایک بشر میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں البتہ حضرت بشر کو دیگر حیوانات سے جو چیز ممتاز اور جدا کرتی ہے وہ اس میں پائی جانے والے ارتقاءاور تنزل کی صلاحیت ہے ۔ علماءاخلاق کے نزدیک جو شے اس بشر کو ارتقا کی طرف لے جاتی ہے۔وہ انسانیت ہے اور جو شے اسے تنزل کی طرف دھکلتی ہے وہ مادیت ہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نسل آدم میں جنم لینے والا کوئی بھی بچہ نہ ہی تو انسان ہوتا ہے اور نہ ہی جانور ۔اسے اپنے ماں باپ ۔ استاد اور ماحول اگر انسانیت کی طر ف مائل کریں تو وہ بشر سے ترقی کر کے انسان بنتا ہے۔ لیکن اگر اسے مادیت کی طر ف دھکیل دیں تو وہ تنزل کر کے اسفل سافلین بنتا ہے۔
ابتدائی آفرینشن سے ہی بشر پر یہ دونوں قوتیں کام کر رہی ہیں۔ایک قوت بشر کو انسانیت کی طر ف کھینچ رہی ہے۔اور دوسری قوت بشر کو مادیت کی طر ف دھکیل رہی ہے۔بشر کو انسانیت کی طرف کھینچنے والی قوت کا مرکز ذات پروردگار ہے۔اور بشر کو مادیت کی طر ف دھکیلنے والی قوت کا مرکز ابلیس ملعون ہے۔
تاریخ بشریت میں جہا ں ہمیں مادیت کی طرف دھکیلنے والی بے شمار شخصیتوں کا پتہ ملتا ہے ۔وہیں ہمیں انسانیت کی طرف دعوت دینے والے انبیاءاور مرسلین کا سراغ بھی ملتا ہے۔یہ دونوں طر ف کے نمائندے ہمیشہ سے ہی اولاد آدم کی فلاح وبہبود کا نعرہ لگاہ کر ہی اپنی اپنی تبلیغات میں مصروف عمل ہیں۔لیکن ان دونوں کے پیغام دعوت میں نمایاں فرق ہے۔ تمام الہی نمائندوں نے عوام الناس کو خود پرستی کی بجائے خدا پرستی اور مادیت کی بجائے الہیات کی طرف دعوت دی ہے۔جب کہ تمام ابلیسی کارندوں نے لوگوں کو خدا پرستی کی بجائے ۔ اناپرستی اور الہیات کی بجائے مادیات کی طرف دعوت دی ہے۔
اسلامی تعلیمات و روایات کے مطابق الہیات کی طرف دعوت دینے والے رہنما اور ہادی ،رسول ،نبی یا امام کہلاتے ہیں۔ اور ان کا شجر فکر خدا وند متعال کی وحی اور الہام سے پروان چڑھتا ہے۔ جب کہ مادیت کی طرف دعوت دینے والے ابلیسی کارندوں کی فکر وہم وگمان اور شیطانی توہمات و وسواس سے نشو ونما پاتی ہے۔
جب ہم امامت کے بارے میں بات کریں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ اگرچہ رسالت اور امامت دونوں کا مرکز اور محور ذات پروردگار ہے۔ لیکن رسالت کی تاریخ امامت سے کئی سو سال قدیم ہے۔امامت دراصل رسالت کے ساتھ ساتھ ایک اور امتیازی خصوصیت کا نام ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میںارشاد باری تعالی ہے ” اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے حضرت ابراہیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا کہ ہم تمھیں لوگوں کا امام بنا رہے ہیں۔“
امام حسن العسکری علیه السلام کی سوانح عمری
نسب:
امام حسن عسکریؑ کا نسب آٹھ واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام علی بن ابی طالبؑ سے ملتا ہے۔ آپؑ کے والد گرامی شیعہ اثناعشریہ کے دسویں امام امام علی النقیؑ ہیں۔ شیعہ مصادر کے مطابق آپ کی والدہ کنیز تھی جنکا نام حُدیث یا «حدیثہ» تھا۔[1] کچھ اور اقوال کے مطابق آپکی مادر گرامی کا نام "سوسن"[2] اور "عسفان"[3] یا "سلیل"[4] بتایا گیا ہے اور دوسری عبارت میں"کانت من العارفات الصالحات"( یعنی وہ عارفہ اور صالحہ خواتین میں سے تھیں") کے ساتھ آپ کا تعارف کروایا گیا۔[5]
آپ کا صرف ایک بھائی جعفر تھا جو امام حسن عسکری کے بعد امامت پر دعوا کرنے کی وجہ سے جعفر کذاب کے نام سے معروف ہوا اور امام حسن عسکری کی اور کوئی اولاد ہونے سے انکار کرتے ہوئے خود کو امامت کی میراث کا اکیلا دعویدار قرار دیا۔[6]سید محمد اور حسین آپ کے دوسرے بھائی تھے۔[7]
القاب:
آپ کے القاب صامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی لکھے گئے۔ کچھ مورخین ںے آپکا لقب "خالص" بھی کہا۔ "ابن الرضا" کے لقب سے امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ مشہور ہوئے[8]۔ امام حسن عسکریؑ کے والد محترم امام ہادیؑ نے تقریباً 20 سال اور 9 مہینے سامراء میں زندگی بسر کی۔ اسی وجہ سے یہ دو امام "عسکری" کے نام سے مشہور ہوئے، "عسکر" سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا۔[9]جیسے امام حسن اور امام حسن عسکری کے مشترک نام ہونے کی وجہ سے امام حسن عسکری کو "اخیر" کہا جاتا ہے ۔[10]
احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکریؑ کی ظاہری صورت یوں بیان کی ہے: آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھ
کنیت:
آپؑ کی کنیت ابو محمد تھی۔ بعض کتابوں میں ابوالحسن[11]، ابوالحجہ[12]، ابوالقائم[13] مذکور ہیں۔
تولد:
معتبر منابع کے مطابق آپ مدینہ میں پیدا ہوئے۔[14]بعض نے آپ کی جائے پیدائش سامرا ذکر کی ہے۔ [15] کلینی اور اکثر متقدم امامی منابع آپ کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ھ [16] شمار کرتے ہیں۔ بلکہ اسے امام نے خود ایک روایت میں بیان کیا ہے ۔[17] شیعہ اور سنی بعض قدیمی مصادر میں حضرت کی ولادت 231ھ میں ہونے کا ذکر ہے۔[18] شیخ مفید نے اپنے بعض آثار میں گیارہویں امام کی ولادت کو 10 ربیع الاخر ذکر کی ہے۔[19] چھٹی صدی میں یہ قول متروک ہو گیا اور اس کی جگہ 8ربیع الاول معروف ہو گیا[20] اور امامیہ کے ہاں یہی مشہور قول بھی ہے۔ بعض اہل سنت اور شیعہ مآخذ حضرت کی پیدائش کا سال ۲۳۱ھ نیز لکھتے ہیں۔[21]
شہادت:
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ ربیع الاول سنہ۲۶۰ھ کے شروع میں معتمد عباسی کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں سرّ من رأی (سامرا) میں جام شہادت نوش کرگئے۔[22] البتہ ربیع الثانی اور جمادی الاولی میں شہید ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں۔[23] طبرسی نے اعلام الوری میں لکھا ہے کہ اکثر امامیہ علما نے کہا ہے کہ امام عسکری زہر سے مسموم ہوئے اور اس کی دلیل امام صادقؑ کی ایک روایت ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں «و الله ما منّا الا مقتول شہيد».[24] بعض تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معتمد سے پہلے کے دو خلیفے بھی امام عسکریؑ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ معتز عباسی نے حاجب کو حکم دیا کہ وہ امامؑ کو کوفہ کے راستے میں قتل کرے لیکن لوگوں کو جب پتہ چلا تو یہ سازش ناکام ہوئی۔[25] ایک اور گزارش کے مطابق مہتدی عباسی نے بھی امام کو زندان میں شہید کرنے کا سوچا لیکن انجام دینے سے پہلے اس کی حکومت ختم ہوئی۔[26] امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں اپنے والد ماجد امام ہادی علیہ السلام دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے۔[27]
ازواج:
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ حضرت مہدی(عج) کی مادر گرامی ہیں۔ لیکن شیخ صدوق اور شہید ثانی نے یوں نقل کیا ہے کہ امام زمان(عج) کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکریؑ کی زوجہ تھیں۔[28]
منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کے زیادہ تر خادم رومی، صقلائی اور ترک تھے[29] اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر امام مہدی(عج) کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے۔
لیکن جو بھی حکمت تھی۔ آخری صدیوں میں امام زمانہ (عج) کی والدہ کے نام کے ساتھ نرجس کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ صیقل ہے۔[30]
دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سوسن[31]، ریحانہ اور مریم[32] بھی ہیں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے چند معرفت بخش اقوال
من وعظ اخاه سراً فقد زانه و من وعظ علانیة فقد شانه
جو اپنے مومن بھائی کو تنہائی میں نصیحت کرتا ہے وہ اس کی شان بلند کر دیتا ہے اور جو علانیہ نصیحت کرتا ہے وہ اس برادر مومن کو رسوا کر دیتا ہے ۔
(تحف العقول،ص۵۲۰)
ما اقبح بالمومن ان تکون له رغبه تذله
مومن کے لئے کتنا برا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی خواہش کرے جو اس کے لئے ذلت اور رسوائی کا سبب بنتی ہیں ۔
(تحف العقول،ص۵۲۰)
اقل الناس راحة الحقود
کینہ رکھنے والے کو کبھی آرام نہیں ملتا ۔
(تحف العقول،ص۵۱۸)
فلسفه اربعین امام حسین علیه السلام
"اربعین" کا لفظ عربی زبان میں چالیس کے عدد کے لئے بولا جاتا ہے. اسلامی کلچر میں اس لفظ کو قرآن و احادیث کی روشنی میں مختلف پہلو خصوصا اخلاقی ، تربیتی اور عرفانی اعتبار سے بہت اہمیت حاصل ہے جن کا آنے والی سطور اختصار کے ساته ذکر کیا جاے گا. شیعہ کلچر میں ان امور کے ساته ساته امام حسین علیہ السلام کے اربعین کے عنوان سے بهی اس لفظ کو مزید اھمیت اور عظمت کی نگاہ سے دیکها جاتا ہے. گذشتہ چند سالوں سے اربعین حسینی کے موقع پر کربلاے معلی میں ایک بہت بڑی تعداد میں مومنین و عاشقان حسین ابن علی علیہ السلام کے اکٹها ھونے نے اربعین کے لفظ سے دنیا کی دیگر قوموں کو بهی آشنا کر دیا ہے.
امید ہے امام حسین علیہ السلام کی یاد کو محرم و عاشور سے اربعین تک اس قدر مفید و هدف مند طریقے سے منایا جائے کہ لوگوں کی ظاهری و معمولی آشنائی ایک عمیق شناخت و معرفت میں تبدیل ھو جائے.
اربعین قرآن کی نظر میں
قرآن میں اربعین کا ذکر چند پہلو سے آیا ہے؛
1- حضرت موسی علیہ السلام کی خصوصی تعلیم و تربیت
قرآن نے دو جدا سوروں کی دو آیات میں حضرت موسی علیہ السلام کی چالیس روزہ تعلیمی و تربیتی میعاد کا ذکر فرمایا ہے.
﴿ وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ ﴾(سورہ بقرة: آیت51)
اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے موسی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا پهر تم نے موسی کے جانے بعد بچهڑے کو اپنا خدا بنا لیا در حالیکہ تم ظالم تهے.
وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً( سورہ اعراف 142)
Menu
آن لائن افراد
ہمارے ہاں 19 مہمان اور کوئی رکن نہیں آن لائن ہیں۔